قرارداد لاہور 23 مارچ1940ء

Mar 23, 2014

ڈاکٹر ایم اے صوفی

1۔ آئینی مسئلے پر آل انڈیا مسلم لیگ کونسل اور مجلس عاملہ کے اس اقدام کی تائید و توصیف کرتے ہوئے جو ان کی 27اگست،17-18 ستمبر،22اکتوبر1939 اور 3فروری 1940 ء کی قراردادوں سے واضح ہوتا ہے، آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس پر زور اعادہ کرتا ہے کہ وہ وفاقی منصوبہ جس کا اظہار گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء میں کیا گیا ہے، قطعاً غیر موزوں، اس ملک کے خاص حالات کے پیش نظر ناقابل عمل اور مسلم ہندوستان کیلئے یکسر ناقابل قبول ہے۔
2۔ اس اجلاس کی یہ حتمی رائے ہے کہ 18اکتوبر1939ء کو جو اعلان وائسرائے نے حکومت ملک معظم کی جانب سے کیا تھا، وہ اس حد تک تو اطمینان بخش ہے کہ جس مسلک اور منصوبے پر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مبنی ہے اس پر ہندوستان کی مختلف جماعتوں، مفادات اور فرقوں کے مشورے سے دوبارہ غور کرنے کا یقین دلایا گیا ہے لیکن مسلم ہندوستان اس وقت تک مطمئن نہیں ہوگا جب تک کہ پورے آئینی منصوبے پر ازسر نو غور نہ کیا جائے اور کوئی نیا منصوبہ مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہ ہوگا تاوقتیکہ ان کی رضا مندی اور منظوری سے مرتب نہ کیاجائے۔
3۔ قرار پایا کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی یہ مسلمہ رائے ہے کہ کوئی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل اور مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ مندرجہ ذیل بنیادی اصولوں پر وضع نہ کیا گیا ہو یعنی جغرافیائی طورپر متصل وحدتوںکی حد بندی ایسے خطوں میں کی جائے (مناسب ردّ بدل کے ساتھ) کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے، ان کی تشکیل ایسی’’ آزاد ریاستوں‘‘ کی صورت میں کی جائے جن کی مشمولہ وحدتیں خود مختار اور مقتدر ہیں۔
 نیز ان وحدتوں اور خطو ں میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کا مناسب، موثر اور حکمی تحفظ ان کے مشورے سے آئین میں صراحت کے ساتھ کیاجائے اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں۔
 مزید برآں یہ اجلاس مجلس عاملہ کا اختیار دیاہے کہ وہ ان بنیادی اصولوں کے مطابق آئین کا ایک ایسا منصوبہ مرتب کریں جس کی رُو سے مذکورہ علاقوں کو بالآخر کلی اختیارات حاصل ہوجائیں گے مثلاً دفاع، امور خارجہ، مواصلات ، محصولات اور دیگر ایسے امور جو ضروری سمجھے جائیں۔ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔
 ان کے اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادا ت کا مناسب، موثر اور حکمی تحفظ ان کے مشورے سے آئین میں صراحت کے ساتھ کیاجائے۔

مزیدخبریں