اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) حکومت اور طالبان کی جانب سے نامزد کردہ کمیٹیوں کے اراکین کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی ملاقات کی جگہ کا تعین کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے کمیٹیوں کا اجلاس طلب کیا تھا، پنجاب ہائوس اسلام آباد میں ہونیوالے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے مولانا یوسف شاہ نے بتایا کہ طالبان سے ملاقات کیلئے جگہ کا تعین ہوگیا ہے اور دو تین روز میں دونوں کمیٹیوں کے ارکان طالبان سے مذاکرات کیلئے معینہ مقام پر جائیں گے۔ طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ جگہ کا تعین ہوگیا ہے اور براہ راست مذاکرات دو، تین روز میں شروع ہو جائیں گے جس کے دوران طالبان کمیٹی کے تمام ارکان موجود ہو ں گے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات سے قبل طالبان کمیٹی کے ارکان ایک دو روز میں طالبان قیادت سے ملاقات کریں گے اور حکومت کی طرف سے پیش کردہ مطالبات کے بارے میں اعتماد میں لیا جائیگا۔ اجلاس دو گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم، یوسف شاہ اور حکومتی کمیٹی کے ارکان رستم شاہ مہمند، وزیراعظم کے ایڈیشنل سیکرٹری فواد احمد فواد، ارباب عارف اور کمیٹی کے سربراہ حبیب اللہ خٹک نے شرکت کی۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات وزیرستان میں کرنے پر اصرار کیا گیا جبکہ حکومت کی طرف سے اصرار تھا کہ اگر مذاکرات وزیرستان میں ہی کرنا ہیں تو یہ پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر میں ہو سکتے ہیں۔ طالبان کمیٹی کی طرف سے ایک بار پھر حکومتی اداروں کی مبینہ تحویل میں موجود بچوں، خواتین اور بزرگوں کو رہا کرنے کا مطالبہ دہرایا گیا جبکہ طالبان کمیٹی نے مذاکرات کیلئے لدھا اور مکین کے مقامات تجویز کئے، بنوں ایف آر میں بکاخیل کا مقام بھی مذاکرات کی جگہ کے طور پر زیرغور آیا۔ اجلاس میں مذاکرات کے مقام کو صیغہ راز میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ سکیورٹی کے مسائل ہیں جب مذاکرات ہوں گے تو سب جان جائیں گے یہ کہاں ہو رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے سابق وزیراعظم گیلانی اور سابق گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادوں کو رہا کرنے کے مطالبات دہرائے۔ سمیع الحق نے کہا کہ طالبان کی طرف سے وزیرستان سے باہر مذاکرات سے انکار کی باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں۔ مذاکرات کیلئے ’’پیس‘‘ زون بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں طرف سے فراخدلی دکھائی گئی۔ ثناء نیوز کے مطابق براہ راست مذاکرات کا طریقہ کار وضع کر لیا گیا، دونوں اطراف سے معاملات آگے بڑھنے بلکہ فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ثالثی کمیٹی کو دونوں فریقین میں ضامنوں کی حیثیت حاصل ہوگی، ڈیڈلاک ہوا توثالثی کمیٹی ہی اُسے دور کرنے کی کوشش کریگی۔ اس حوالے سے اہم فیصلے کر لئے گئے ہیں اور وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف کو مشترکہ اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم نئی پیشرفت کے بعد لاہور سے اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ سمیع الحق نے کہا کہ اب سرکاری کمیٹی کو طالبان شوریٰ کے اراکین سے ملاقات ہوگی، طالبان مذاکراتی کمیٹی کے اراکین بھی موجود ہونگے۔ ذرائع کے مطابق یہ ملاقات خیبر پی کے کے جنوبی اضلاع کے ایف آر کے علاقے میں متوقع ہے۔ سرکاری کمیٹی کے مقررہ مقام پر پہنچنے پر اس کا اعلان کردیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ حساس ترین مرحلہ آگیا ہے، احتیاط کی ضرورت ہے، قوم کو اچھا نتیجہ سنانے میںکامیاب ہو جائیں گے، قوم جلد خوشخبری سنے گی۔ مقررہ مقام پر فریقین کی آزادانہ آمدورفت ہو گی، دونوں فریقین کی جانب سے اس حوالے سے مناسب انتظامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا وزیر داخلہ سارا وقت اجلاس میں موجود رہے اب مقررہ مقام پربات چیت ہوگی، ایک دور وز میں ایک مذاکرات شروع ہوجائیں گے جس جگہ کا اتفاق رائے سے تعین ہوا وہیں بات چیت ہو گی انہوں نے کہا کہ ضمانتوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہماری موجودگی ہی دونوں فریقوں کیلئے ضامن کی حیثیت رکھتی ہے، قیدیوں سمیت تمام مسائل زیر غور آئیں گے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دونوں جانب سے بنوں ایئرپورٹ کے مقام پر اتفاق ہو جائے گا جبکہ حکومت کی طرف سے جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر کی تجویزبھی دی گئی تاہم حتمی فیصلہ طالبان شوریٰ کریگی ۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چونکہ طالبان کے ڈرون حملے میں مارے جانے والے امیر حکیم اللہ محسود بھی اپنی ہلاکت سے قبل بنوں ایئرپورٹ پر حکومتی وفد سے ملنے کیلئے تیار تھے ۔ اس بنا پر امید ہے کہ دونوں فریقین بنوں ایئرپورٹ پر ملنے پر آمادگی کا اظہار کردیں گے کیونکہ یہ جگہ ڈرون حملوں سے بھی محفوظ ہے۔ مولانا سمیع الحق کی طرف سے مذاکرات کیلئے آنیوالے طالبان رہنمائوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا جس پر وزیر داخلہ نے ہر طرح کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ آئندہ چوبیس گھنٹوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے اہم اعلان متوقع ہے۔ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ بات چیت کی کامیابی کے لیے اہم نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اس ضمن میں دو طرفہ بحالی اعتماد کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ان ممکنہ اقدامات سے خیبر پی کے حکومت کو بھی آگاہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مذاکراتی مقام کے سلسلے میں دونوں کمیٹیوں کو خیبر پی کے حکومت کا خصوصی تعاون حاصل ہو گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کمیٹیوں کو لاجسٹک سپورٹ حاصل رہے گی۔ہائی پیس زون میں انتظامیہ کی جانب سے بعض اقدامات کئے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے اجلاس میں 2 مقامات پر اتفاق ہوا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے علاوہ بنوں میں بکاخیل کے علاقے کی تجویز دی گئی۔ حکومت کی بنوں میں سکیورٹی کی یقین دہانی کی ہے جس پر طالبان کمیٹی نے اتفاق کیا ہے۔ ایک دوسرے ذریعے کے مطابق مذاکرات بنوں ایف آر میں ہی ہوں گے۔ علاوہ ازیں مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ اجلاس میں بہت بڑی کامیابی ہوئی ہے۔ مذاکرات کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔