حمید نظامی … ادارہ نوائے وقت کے امام

دین اسلام میں اصلاح بین الناس کو نیک کاموں میں بڑی فضلیت اور اہمیت حاصل ہے۔ اگر یہ کام اخلاص اور رضائے الٰہی کے مقصد سے کیا جائے تو یہ بڑا عمل سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح نیک بات کی اشاعت کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ اچھی بات پھیلانے اور اچھی بات کرنے کا بڑا درجہ ہے۔ انسان کی کئی خصلتیں ہیں۔ نیک خصلتوں کا حامل اور ان کی حفاظت کرنے والا اللہ کے فضل کو پاتا ہے بلکہ اللہ کی رحمت اس پر نازل ہوتی ہے۔ جو لوگ کسی مقصد کیلئے مسلمانوں کی بہبود کیلئے آگے بڑھتے ہیں‘ مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں‘ اللہ کی ان پر رحمت ہوتی ہے۔
حمید نظامی کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو واضح ہوتا ہے؛
1۔ مقصد: مسلمانوں کا جدا ملک‘ مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنا‘ قائد کی معاونت کرنا یہ رشتہ اتنا مضبوط کیا کہ دریا کی موج کی طرح ہر مقام سے گزر گیا۔ امت مسلمہ کی لگن کا ذکر کیا۔
2۔ جدوجہد مسلسل: نظامی صاحب نے سوچ سمجھ کر کھوج لگا کر جدوجہد کی ٹھان لی اور محدود حالات ان کو اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹا سکے۔ نوائے وقت کن حالات میں جاری ہوا‘ بیڈن روڈ کا ایک کمرہ‘ قلم‘ ایک بندے کی سوچ‘ کوہساروں تک پہنچ گئی۔ وہ کام سے کتراتے نہیں تھے۔ وہ اچھے تیراک ہو چکے تھے کیونکہ مشکلات میں چھلانگ لگا بیٹھے تھے۔ تیراکی حالات نے سکھا دی‘ کئی دریا‘ پہاڑ سب فتح کر لئے۔
3۔ خود اعتمادی: ان میں خوداعتمادی کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا۔ کسی کی بات پر دھیان نہیں دیتے تھے۔ ان کو علم تھا ’’ہر نفس کو وہی کچھ ملے گا جو وہ کما کر ساتھ لے گیا ہوگا۔‘‘
یہی وجہ تھی کہ کمزوری ان کا تعاقب نہ کر سکی۔ ان کا حصول محنت و کاوش تھی۔ وہ اپنے خیالات میں خیانت کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ دھوکے اور فریب سے کتراتے تھے۔ کسی قسم کی چرب زبانی ان کو نہ بھاتی تھی۔ ان کی وکالت یا حمایت سچائی تھی۔ اپنی دلیل و محبت پیش کرنے میں کبھی غفلت سے کام نہیں لیا۔ وہ جوان تھے۔ تیز طرار اور ہوشیار تھے۔ ان کی گفتگو متاثرکن ہوتی تھی جس کا ثبوت محترم یحییٰ بختیار نے اپنی یادوں کے ذکر میں کیا۔ 1943ء اینگلو عریبک کالج دہلی میں آل انڈیا کا ایک اجلاس ہو رہا تھا۔ قائداعظم صدارت کر رہے تھے۔ بڑے بڑے زعماء جلسہ میں موجود تھے۔ خاکساروں کے خلاف کافی کچھ تقریروں میں کہا جا رہا تھا اور ایک قرارداد پیش ہونے لگی کہ خاکساروں کی تحریک کو سیاسی حمایت کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا جائے۔ اس طرح مسلمانوں کی ایک اور سیاسی جماعت میدان میں آجائے گی۔ حمید نظامی بڑے کٹر اور پکے مسلم لیگی تھے‘ تاہم جمہوری طرز عمل ان کا ایمان تھا۔ یہ بات حمید نظامی کو پسند نہ تھی‘ وہ اٹھے سٹیج پر جا کر قائداعظم سے تقریر کرنے کی اجازت چاہی اور تقریر کرتے وقت اپنی حق گوئی کا ثبوت یوں دیا ’’جناب عالی! اس قرارداد کی مخالفت کرتا ہوں۔‘‘ یہ بہت بڑی جرأت تھی۔ بڑے بڑے لیڈر بیٹھے تھے‘ کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ اٹھ کر قرارداد کی حمایت کے خلاف تقریر کر سکے۔ کیونکہ قائداعظم سٹیج پر صدارت کر رہے تھے۔
ایک دبلا پتلا انسان قراداد کی مخالفت پر کھڑا ہو گیا۔ ہنگامہ ہو گیا۔ صدارت پر بھی جمہوریت پسند قائداعظم تھے۔ آپ نے خود کھڑے ہوکر لوگوں کو کہا اور ڈانٹ پلائی اور فرمایا ’’جمہوری اصولوں کی روشنی میں حمید نظامی کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اس قرارداد کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ لوگ چپ ہو گئے۔ (یحییٰ بختیار… ندائے ملت مارچ 2000ئ)
حمید نظامی کی یہ خصوصیت اصولوں سے لبریز تھی۔ ان کے ارادوں میں پختگی تھی اور ان کے عملی انداز جدا تھے اور قوم کے ضمیر کو جگانا چاہتے تھے وہ کبھی غفلت کے مرتکب نہ ہوئے۔ گویا وہ اقبال کی حقیقت کے بھی ترجمان تھے؎
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
بے شمار لوگ قائداعظم کا زاویہ نگاہ پیش کرنے کیلئے آگے بڑھے۔ حمید نظامی نے پاکستان کی جنگ لڑی اور جابر حاکم کے سامنے کلمۂ حق کہا اور نوائے وقت کے ذریعے نظریۂ پاکستان کو دنیا میں پھیلایا ۔ مجید نظامی یہی مشن لیکر آگے بڑھے۔جو شخص قائداعظم کے سامنے کسی قرارداد کی مخالفت کرنے کی جسارت کر سکتا ہو‘ وہ کسی آدمی کو بخش نہیں سکتا تھا۔ یہی حال ہوا۔ لیاقت علی خان سے بھی کسی قسم کی جھجک محسوس نہ کی۔
لیاقت علی خان نے وزارت عظمیٰ اور صدارت مسلم لیگ کو یکجا کیا۔ نظامی نے مخالفت نہ کی اور حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کیلئے جناح لیگ پیدا ہوئی۔ اب یہ واقعات ان کی ڈائری سے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ لیاقت علی خان کی شہادت 14 اکتوبر 1951ء کو ہوئی۔ اس کے بعد خواجہ ناظم الدین بھی وزیراعظم کے ساتھ صدر مسلم لیگ ہوئے اور اسی طرح صوبہ سرحد میں خان عبدالقیوم خان 2 مئی 1951ء کو سرحد مسلم لیگ کے صدر ہوئے۔ آپ نے ان حضرات سے اختلاف رائے رکھا۔ صدر ایوب 1958ء میں مارشل لاء لیکر آئے۔ آپ کیلئے یہ منحوس لمحے تھے۔ اسی گھٹن نے آپ کو متاثرکیا اور ایوب خان نے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ دیگر کئی واقعات ہوئے۔ لہٰذا آپ 25 فروری 1962ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حمید نظامی نے اپنی سیاسی زندگی کے سفر کا آغاز قائداعظم محمد علی جناح کی شہرت اور لگن کی وجہ سے کیا۔ آپ علامہ اقبال کے نظریات سے بھی بڑے متاثر تھے۔ ان لوگوں کی ساکھ سوچ بڑی مقبول ہو چکی تھی اور اسی شخصیت سے متاثرہوئے اور کالج میں اپنی خداداد قابلیت کی بدولت ہردلعزیز ہوگئے۔
یہ ان کی خوش بختی تھی کہ قائداعظم جیسے مشاہیر کے ساتھ کام کیا۔ حمید نظامی کے ساتھی بھی بڑے عمدہ لوگ تھے۔ سب کے سب اسلامی ملک کے حامی تھے کیونکہ قائداعظم نے 1943ء میں جالندھر میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا۔ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا کون ہوگا؟یہ کام پاکستان میں رہنے والے کریں گے اور میرے خیال میں مسلمانوں کے طرز حکومت کو آج سے تیرہ سو برس قبل قرآن نے مقرر کر دیا تھا۔‘‘
اس تقریر نے حمید نظامی اور دیگر طلباء مسلم سٹوڈنٹس کے حوصلے بلند کر دیئے۔ آپ نے اس سے قبل 23 مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس کے موقع پر خطاب فرمایا تھا۔ اس اجلاس میں حمید نظامی سمیت پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے لوگ موجود تھے۔
’’اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں بلکہ درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترک قومیت تخلیق کر سکیں گے۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ (قائداعظم 23 مارچ 1940ئ)
قائداعظم بڑے عظیم تھے۔وہ دن رات کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو مسلمانوں کی بہتری کیلئے وقف کر لیا تھا۔ اسی وجہ سے حمید نظامی بڑے محنتی تھے۔ کام کرتے تھے۔ ان کو قائداعظم کی ذات پر بڑا بھروسہ تھا۔ قائداعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی حاصل کرنے کیلئے ابھارا اور قوم میں اعتماد پیدا کیا۔ اقبال نے اپنی شاعری سے مسلمانوں میں نئی روح پھونکی۔ آپ نے بھی مسلمانوں کو عمل پر اکسایا۔ آپ کی شاعری امید سے بھری پڑی ہے۔ آپ نے الہ آباد کے مقام پر 1931ء میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا۔ حمید نظامی اور ان کے رفقاء بڑے متاثر تھے۔
حمید نظامی کی وفات کے بعد آپ کے چھوٹے بھائی مجید نظامی نے آپ کی ذمہ داری پوری طرح سنبھال لی اور نظریۂ پاکستان کو گھر گھر نوائے وقت‘ ندائے ملت‘ پھول‘ فیملی اور نیشن کے ذریعہ پہنچایا۔میری ملاقات حمید نظامی سے 1952ء سے 1956ء تک رہی۔ میں نے لاہور میں چار سال تک طالبعلمی کے گزارے اور طالبعلموں کا لیڈر تھا۔ خبر دینے کیلئے حمید نظامی صاحب کے پاس جاتا تھا۔ حمید نظامی کا نوائے وقت کا دفتر ان دنوں الفلاح بینک کے اوپر والی منزل پر ہوتا تھا۔ حمید نظامی کے کمرہ کے سامنے چِک تھی۔ نوائے وقت کے ساتھ ظہور عالم شہید کام کرتے تھے۔ مجھے حمید نظامی صاحب نے بہت حوصلہ دیا۔ ہمیں سمجھایا گیا کہ طلباء کی سرگرمیاں تحریر کریں۔ ہم نے طلباء کی سرگرمیاں تحریر کیں۔

ای پیپر دی نیشن