اخبارات کی دنیا میں نوائے وقت اور انکے بانیوں میں دو نام (جناب حمید نظامی اور جناب ڈاکٹر مجید نظامی) ہمیشہ دنیائے صحافت کوباوقار اور سر بلند رکھیں گے اگرچہ کوہ نور اٹھارہ سو پچاس میں لاہور پنجاب سے شائع ہو کر اردوکے پہلے اخبار کا اعزاز حاصل کرتا ہے کوئی اٹھارہ سو تریسٹھ میں گوپی ناتھ پنڈت اور مکھنڈ رام پنڈت اخبار عام نکالتے ہیں پیسہ اخبار بیسویں صدی میں محبوب عالم شروع کرتے ہیں انیس سو دس میں مولانا ظفر علی خان اپنے والد گرامی کا اخبار زمیندار لاہور لاکر اسے روزنامہ بناتے ہیں مولوی انشاء اللہ خان وطن اخبار نکالتے ہیںمولانا ظفر علی خان نظر بند کر دئیے گئے اسیری سے رہائی کے بعد وہ ستارہ صبح نکالتے ہیں انیس سو ستائیس میں مولانا غلام رسول مہر نے روزنامہ انقلاب نکالا انیس سو چونتیس میں ایک اخبار احسان نکلا شہباز کے نام سے مولانا مرتضی خان مہکش ایک روزنامہ نکالتے ہیں لیکن بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم کی دلی خواہش پر انیس سو چالیس میں بانی نوائے وقت تحریک پاکستان کو توانا جذبوں سے ہم آہنگ کرنے والے سچے عاشق رسول ﷺاور محب وطن منفرد اور بلند پایہ صحافی جناب حمید نظامی نے 23 مارچ کو نوائے وقت اخبار نکالنے کا اعلان کیا جو اس وقت کی بھی آواز تھی اور آج کی آواز بھی۔ جس نے تحریک پاکستان میںکو جلا بخشی اور جناب حمید نظامی کی آوازپہ ہزاروں طلباء نے تحریک پاکستان کا ایسا پرچم بلند کیا جسے پھران رفعتوں پہ فائز کیا گیا جہاں پہ پاکستان کا پرچم سر بلند ہوا جو مسلمانان اسلام پہ خدا کی رحمتوں کا سایہ بن کر چھایاحمید نظامی نے قائد اعظم کے پیغام کو بر صغیر کے کونے کونے میں پہنچا دیادرج بالا اخبارات کسی نہ کسی طرح سے حکومتی اخباروں کا التفات پاتے رہے لیکن نوائے وقت دنیا کے نقشہ پہ ابھرنے والی مملکت خدا داد کی طرح ہر چٹان سے ٹکرایا واحد اخبار ہے جو پاکستان کی طرح خالصتًا نظریاتی اخبار ہے اور اسے قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ترجمانی کا اعزاز بھی حاصل ہے جو کسی اور کے حصہ میں نہ آیا بر صغیر کی صحافت انگریز سامراج ہندو صحافیوں کے سبب ایک صحافتی جنگ بن چکی تھی ایسے میں حمید نظامی کی صلاحیتیں بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئیں جیسے کہ پاکستان اورنظریہ پاکستان کے لئے جناب مجید نظامی کا وجود بھی نعمت غیر مترقبہ کا حامل تھا جنہوں نے اپنے بھائی کے شروع کئے اخبار کو ایک ایسا تناور درخت بنا دیا جسکی چھائوں میں کتنے ہی قد آور صحافیوں نے آکر سکھ کا سانس لیا اور دنیا میں صحافتی عزتوں اور شہرتوں کو پایا حمید نظامی جنکی آواز پہ انکی بنائی سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ہزاروں طلباء نے جو نعرہ لگایا کہ بن کے رہے گا پاکستان لے کے رہیں گے پاکستان نے تحریک پاکستان کو ایسی تحریک بخشی کہ بالآخر پاکستان دنیا کے نقشے پہ معرض وجود میں آگیا اور بڑے بڑے نام مسلم لیگ میں شامل ہونے پہ مجبور ہوگئے کانگرس جو پاکستان کے خلاف محاذ کھولے ہوے تھی حمید نظامی کی دانش و حکمت اور تازہ ولولوں کے آگے ہیچ ہو گئی نوائے وقت نے کار ساز دہر میں دشمنان اسلام اور پاکستان کے لئے جو کردار ادا کیا اسکی مثال نہیں ملتی اور انکے بھائی جناب مجید نظامی نے نظریہ پاکستان اور نوائے وقت کے لئے جو کام کیا اسکی گونج آج نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز کی صورت میں دنیا بھر کو سنائی دی جا رہی ہے بر صغیر کی صحافت کو ارتقائی مراحل سے گذارنے میں نوائے وقت کا نام لئے بغیر چارہ نہیں آج لوگ نوائے وقت کو پڑھنا بھی اعزاز سمجھتے ہیں حمید نظامی پاکستان اور صحافت کے وہ بہادر سپاہی ہیں جن کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیا جاتا رہے گا۔ حق اور بے باکی کے دونام حمید نظامی اور مجید نظامی باطل قوتوں کے لئے آج بھی چٹان کی طرح ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ آج بھی یہ قبر سے اٹھ کر انکے سامنے آکھڑے ہوں گے۔