قاضی عبدالرسول
علامہ اقبال نے 1930 میں الٰہ آباد کے مقام پر مسلمانوں کی تمدنی اور سیاسی بقاء کے لئے جو نظریہ پیش کیا 23مارچ 1940ء کو قوم نے اسے سنجیدگی سے اپنا لیا اور قومی نظرئیے کی بنیاد پر اپنے لئے علیحدہ اور آزاد قومی مملکت کے قیام کا عزم کر کے اس کے صرف سات برس بعد 14 اگست 1947ء کو قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے مسلمانان ہند کی ہمیشہ سے یہ آرزو رہی کہ جس ریاست میں وہ بستے ہوں وہاں کا نظام خالص جمہوری اور اسلامی اصولوں پر استوار ہو۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز کے خلاف یہ نفرت کھل کر سامنے آگئی۔ ہندو چونکہ صدیوں سے غلام چلے آرہے تھے۔ انہوں نے انگریزوں کی غلامی کو اپنے مفاد کی خاطر قبول کرلیا اور انگریزوں کے ساتھ مل کر ’’مسلم دشمن‘‘ حکمت عملی تیار کروائی تاکہ مسلمان من حیث القوم زندگی کے ہرشعبہ میں ہندوؤں سے پیچھے رہ جائیں۔ انیسویں صدی کے آخری ربع میں یہ سازشیں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئیں مسلمانوں کو ان کے ثقافتی وملی ورثہ سے محروم کرنے کے لئے برصغیر کی تعلیم کے روایتی طور طریقے اور انداز بدل گئے فارسی عربی اور اسلامی تعلیمات کی جگہ انگریزی اور دوسرے علوم نے لے لی۔ ہندوؤں نے ہندی زبان کے طرفدار ہونے کے ناطے سے اس نظام کی ترویج وترقی میں ان کا ہاتھ بٹایا ۔یہ ایک خوفناک سازش تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط کی طرف مائل کرنا تھا تاکہ یہ اپنی روایات اقدار بھول جائیں۔ ہندو دراصل قوم مسلم کو احساس کمتری میں مبتلا کرکے رفتہ رفتہ ایک طویل المیعاد منصوبے کے تحت اپنی حریف قوم کو اپنے تہذیبی سمندر میں جذب کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے پاس اس صورت میں ایک ہی راستہ باقی تھا کہ وہ اپے قومی تشخص کی بقاء اور احیاء کی خاطر ایک الگ وطن کے لئے جدوجہد کو اپنا قومی وملی نصب العین قرار دے لیں۔
قرارداد پاکستان 23مارچ 1940تشکیل تحریک پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اس قرارداد کی منظوری نے ہندواور انگریز کے ایوانوں میں تہلکہ مچاد یا گاندھی پکار اٹھا تھا ’’گاؤماتا‘‘ کے دو ٹکڑے نہیں ہوسکتے نہرو نے اسے مجذوب کی بڑ، اور پٹیل نے اسے دیوانے کا خواب قرار دیا لیکن اس کے باوجود دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا وہ عظیم مملکت معرضِ وجود میں آکر رہی جس کے قیام کی جدوجہد کی باقاعدہ منصوبہ بندی کا آغاز 23مارچ فرزندانِ توحید کے اجتماع میں تیار کیا گیا گویا کہ قرارداد پاکستان ہی کا اعجاز عظیم تھا کہ اس نے تحریک پاکستان کو واضح اور منظم شکل دی مسلمانوں کے اندر اس تحریک میں شمولیت اختیار کرنے کا احساس اور شعور پیدا کیا۔ 23مارچ کو جس منزل کا تعین کیا گیا اس کا حصول کوئی معمولی کام نہ تھا اس تک رسائی کے لئے رکاوٹوں آزمائشوں اور امتحانوں کے جان گسل اور حوصلہ فرسامراحل سے گزرنا پڑا مگر جب سفر کا آغاز ہوا تو ہر مرحلہ خودبخود ہی خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہوتا چلا گیا اور بالآخر یارانِ تیز گام نے اپنے قائد کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنی منزل کو جالیا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر تحریک پاکستان کے جذبے اور ولولے کو بیدار کریں۔ قرارداد پاکستان کے اساسی اصولوں کو پیش نظررکھتے ہوئے پاکستان کو ایک مثالی اور مہتم بالشان فلاحی اسلامی مملکت مملکت بنانے کی جانب پیش رفت کریں ۔اپنے لئے وہی جذبہ اور جوش پیدا کریں جو تحریک پاکستان کے دنوں میں بانی پاکستان نے اس قوم کے ذہنوں میں پھونک کر انہیں ایک آزاد وخود مختار مملکت کا وارث بنایا اور دنیا کی قوموں میں عزت و وقار کے ساتھ رہنے کے عصری تقاضوں سے روشناس کرایا۔