قراردادِ پاکستان اور قرارداد مقاصد

قراردادِ پاکستان 23 مارچ 1940ء اور قراردادِ مقاصد 12مارچ 1949ء کو پاس ہوئی۔ قرارداد پاکستان کو منظور ہوئے 76 برس گزر چکے ہیں۔ اس قرارداد کے نتیجے میں ہمارا آزاد وطن قائم ہوا، جس میں ہم جی رہے ہیں۔ برصغیر میں دو قومیں آباد تھیں۔ ایک مسلمان اور دوسری ہندو۔ مسلمان یہاں پر چھ سو سال حکمران رہے۔ البیرونی پہلا شخص تھا جس نے محسوس کیا کہ مسلمان اور ہندوؤں میں کتنا فرق ہے اور یہ کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ’’ہندو، مسلمان کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔ نہ اکٹھے بیٹھ کر کھا سکتے ہیں نہ پی سکتے ہیں۔ اگر اکٹھے بیٹھ کر کھا یا پی لیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پلید یا ناپاک ہو جائینگے۔ جب وہ اکٹھے بیٹھ کر کھا پی نہ سکیں تو وہ ایک قوم کیونکر بن سکتی ہے۔‘‘ دو قومی نظریہ ایک نیا تخیل اور نیا تصور تھا ۔ قراردادِ پاکستان کی منظوری کے 47برس بعد میں نے ان چند دانشوروں سے دریافت کیا جو 1940ء میں اس عظیم اجتماع میں موجود تھے کہ انکے تاثرات کیا ہیں۔
ظہور عالم شہید کا کہنا تھا کہ 23مارچ 1940ء کی قرارداد میں جہاں آزاد مسلم مملکت کا مطالبہ کیا گیا وہاں یہ عزم بھی کیا گیا کہ مسلم مملکت اور ہندوستان میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے معاملات کے تحفظ کیلئے انکے مشورہ سے دستور میں تسلی بخش انتظامات کیے جائینگے۔ پاکستان کا مطالبہ کرتے وقت ہر کسی کی یہ خواہش تھی کہ انگریز اور ہندو کی اقتصادی غلامی ختم ہو جانے کے بعد پاکستان میں معاشی انصاف کا دور دورہ ہو گا لیکن انگریز اور ہندو کے بعد یہاں مسلمان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے نہ صرف سیاسی تسلط قائم کر لیا بلکہ عام مسلمانوں کے اقتصادی استحصال کا بھی لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ پاکستان اس لیے تو حاصل نہیں کیا گیا تھا کہ امیر پہلے سے امیر اور غریب مزید غریب ہو جائے۔ قراردادِ لاہور کی منظوری کے بعد قائداعظمؒ کی رہنمائی میں جو عدیم النظیر تحریک چلی، اس نے مسلمانوں کے اتحاد کو پوری طرح مستحکم کر دیا اور کوئی شخص بھی علاقائی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر بالکل نہیں سوچتا تھا۔
پروفیسر جیلانی کامران کا کہنا تھا کہ قراردادِ پاکستان میں جس آزاد وطن کی جانب رہنمائی کی تھی، میری خوش نصیبی ہے کہ میں اس آزاد وطن میں جی رہا ہوں اور مجھے اپنی ایک بااختیار دنیا میسر ہے۔ قراردادِ پاکستان دراصل برصغیر میں مسلمانوں کے اقتدار کی مظہر بھی ہے اور اس قرارداد کے ذریعے قیام پاکستان کے ساتھ جنوبی ایشیاء کے مسلمان تاریخ کے تسلسل میں بااختیار قو م کی طرح شریک ہوئے جو قراردادِ پاکستان کی عدم موجودگی میں کسی طرح ممکن نہ تھا۔ قراردادِ پاکستان کے حوالے سے بے اطمینانی کی کوئی وجہ نہیں البتہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا دکھ ضرور ہے۔ جب قرارداد منظور ہوئی تو میری عمر آٹھ برس تھی اور جس سال پاکستان بنا، میں نے ثانوی تعلیم مکمل کی۔ سو عمر اور عقل کے اس پس منظر میں میری سوچ صرف اس حد تک باقی تھی کہ پاکستان میں انگریز اور ہندو کے تسلط سے آزاد ایک ایسا معاشرہ ہو گا جس میں کوئی تعصبات نہیں ہونگے اور نتیجتاً ناانصافیاں بھی نہیں ہوں گی۔ ہم انگریز اور ہندوسے تو آزاد ہو گئے لیکن خود اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں سے آزاد نہ ہو سکے۔ رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میں موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام حکومت ہے وہ تاحال قرارداد مقاصد تو کجا اسکے معانی سے واقف نہیں ہوئے۔ ہر کسی نے اپنے ذاتی مقاصد ہی کو پیش نظر رکھا ہے۔ جس کو اقتدار مل جاتا ہے، اسکے مقاصد کو قرار آ جاتا ہے اور جو محروم رہتا ہے، اسکی بیقراری ہمیشہ دیدنی رہی۔ تحریک پاکستان انگریز کی غلامی ہی نہیں، فکر و تہذیب اور تمام الحادی مکاتب فکر کے خلاف ایک اعلان بغاوت تھا۔ تحریک پاکستان کے مقاصد میں اللہ کی حاکمیت قائم کر کے آئین اسلام کا نفاذ کرنا تھا جو ابھی تک نہیں ہوا۔ پاکستان میں لوگوں کے کاروبار چمکے، بڑی بڑی ملازمتیں ملیں، مکان بنے، ملیں لگیں لیکن وہ سکونِ قلب جس کے حصول کی خاطر لوگ قافلہ در قافلہ پاکستان کی سرحدوں میں داخل ہوئے تھے، عنقاہی رہا۔ پاکستان میں، پاکستانیوں کو بہت سی کامیابیاں حاصل ہوئیں، بہت کچھ ملا مگر ان کے تصور کا پاکستان نہیں ملا۔ سابق اٹارنی جنرل شیخ غیاث محمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تخلیق کا مقصد بروئے قراردادِ پاکستان یہ تھا کہ مسلمانوں کو علیحدہ خطہ دستیاب ہو جس میں وہ اجتماعی اور انفرادی زندگی اسلامی احکام کے مطابق بسر کر سکیں۔ حصول پاکستان کے نتیجے میں ایسا خطہ میسر ہو گیا اور اس میں ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں جن سے مقصد پاکستان کی تکمیل ہو سکے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس بارے میں ان حالات کو پیدا کرنے کیلئے مثالی کردارادا ہوا ہے تاہم حالات امید افزا ہیں۔ اگر مناسب اندازِ فکر اختیار کیا جائے تو مایوسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ یہ تینوں شخصیات اب فوت ہو چکی ہیں۔ میں نے سید افضل حیدر سے بھی تاثرات معلوم کیے تھے۔ سید افضل حیدر ماشاء اللہ بقید حیات ہیں۔ وہ فیڈرل شریعت کورٹ کے جج، وزیر قانون اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہ چکے ہیں۔ قرارداد پاکستان کی منظوری کے وقت ان کی عمر 9برس تھی۔ انہوں نے اپنے والد سید محمد شاہ کے ہمراہ اس عظیم اجتماع میں شرکت کی تھی۔ سید افضل حیدر صاحب نے 1987ء میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس زمانے میں بھی قائداعظمؒ نے جاگیردار ، سرمایہ دار اور انگریز کی حکومت جو طاقت کی بنیاد پر تھی، اسکے خلاف جہاد کیا تھا۔ ان مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل پاکستان کا خواب تو یہی تھا کہ بیوروکریسی، جاگیرداری اور سرمایہ داری کے استحصال سے نجات ہو گی اور عوام سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیکر اپنی پسند نا پسند کا فیصلہ دیتے رہیں گے تا کہ جمہوریت کے سفر کاارتقاء ہو سکے۔ قائد اعظمؒ خود سیاسی جماعت سے وابستہ تھے، سیاسی عمل پر یقین رکھتے تھے لہذٰا 1947ء کے بعد یہ جائز خواہش تھی کہ مستقبل میں سیاسی عمل پروان چڑھے گا۔

ای پیپر دی نیشن