دو قبریں

Mar 23, 2016

آغا باقر

1931میں آزادی ہند کیلئے برصغیر پاک ہند کی ہند و مسلم قیادت اور انگریز کے مابین لند ن میں قائم شدہ گول میز کانفرنس کے موقع پر ایک عظیم ادبی وصحافتی شخصیت نے بھی خطاب کیا اور انگریز حکمرانوں سے بڑے واضح اند از میں کہا کہ وہ ایک آزادی پسند شخص ہیں اور انگریز حکمران سے آزادی ہند کا پروانہ لے کرہی وطن واپس لوٹیں گے۔اپنے خطاب جو بعدازاں مرنے والے اس عظیم شخص کی آخری خواہش ثابت ہوئی میں انہوں نے انگریز حکمرانوں سے دو ٹوک الفاظ میں کہا ، ’’میںاپنے ملک میں آزادی کا پروانہ اپنے ہاتھ میں لے کر واپس جانا چاہتا ہوںبصورت دیگر میں ایک غلام ملک ہندوستان میں واپس نہیں جائوں گا اورکسی آزاد سرزمین میں دفن ہونے کو ترجیع دوں گااور اگر آپ مجھے انڈیا میںآزادی نہیں دیتے ہیں تو پھر آپ کو مجھے یہاں اپنے ملک میں قبر فراہم کرنا ہو گی ‘‘ ۔ قدرت نے شاید اُنکی خواہش کو وہیںقبول کر لیا کہ ہندوستان کو فوراً آزادی تو نہ مل سکی لیکن مولانا محمد علی جوہر وہیں وفات پا گئے اور غلام سرزمین کی بجائے آزادسر زمین مسجد اقصیٰ بطورآخری آرام گاہ اُن کا مقدر بنی ۔لیکن آزادی کیلئے اُن کی دعا اور تڑپ یوں امر ہو گئی کہ چند ہی سالوں بعد اُنکی سرزمین کو آزادی نصیب ہو گئی۔ہندوستان میں نہ صرف ہندو آزاد ہو گئے بلکہ مسلمان بھی ہندو اور انگر یز کی غلامی سے آزاد ہو گئے۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
دوسری طرف مغلیہ سلطنت کے آخری فرماں رواںانگریز کے ہاتھوںجلا وطن ہو کر برما کے جزیروں میں کالاپانی کی سزا کاٹتے بہادر شاہ ظفر اُسی زمین میں قبر کیلئے دوگززمین دفن ہونے کیلئے ترستے ہیں جسکی رعایا اُنکے پائوں کی مٹی کو کبھی اپنے لئے جواہر سمجھتی تھی۔غلامی اور جلاوطنی سے کچھ ہی عرصہ قبل جب بہادر شاہ ظفر بطور مغل حکمران برصغیر پاک وہند میں محلاتی عیش و عشرت ،طائوس و رباب میں اس قدر مگن تھے اُنہیں انگریز غلامی کی زنجیروں کی کھنک اور توپوں کی گرج سنائی نہ دے رہی تھی۔لیکن جب بہادر شاہ ظفر کو مغلیہ خاندان کے عوامی خدمت اور انصاف کے حقیقی مقاصد سے غفلت کا احساس ہواتو اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ تاہم یہاں سوال یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفرقید سے رہائی اور ہندوستان میں آخری آرام گاہ کے حصول کے لیے تڑپ رہے تھے یا مولانا محمد علی جوہر کیطرح آزاد سر زمین کی تڑپ سے سرشار ؟
غلامی کی زنجیروں سے حقیقی آزادی کیلئے ایک طرف علامہ اقبال مسلمانان ہند کو اُنکے مقاصد بتلاتے ہیں تو دوسری طرف چوہدری رحمت علی کی پکار ایک آزاد ملک کیلئے پاکستان کے نام کی صورت میں اُمڈکر باہر آجاتی ہے حتی کہ آزادی اور حب الوطنی سے سرشار ان تمام جذبات کا بھرپور اظہار 1940میں قرار داد لاہور جو بعد ازاں ہندو کی مخا لفت کے سبب قراردا د ِ پاکستان کہلاتی ہے اور قرارداد ِ مقاصد کی بنیادبنتی ہے۔
جناب والا! آزاد فضا میں سانس اور آزاد سرزمین میں دفن کیلئے تٹرپ رکھنے والے جانثار وں کے سامنے چند مفادات نہیں بلکہ چند مقاصد تھے جن میں حقیقی آزادی اولین مقصد تھا جبکہ دیگر مقاصد میں اللہ کی حاکمیت اعلٰی، اللہ کے الفاظ یعنی قرآن بطور آئین پاکستان ،اعلیٰ و ادنی کے مابین تفاوت کے تصورسے پاک تمام انسانوں کی مساوات کا اُصول ، حقیقی شورائی جمہوریت، سچے ایمانداراور تعصب سے پاک قاضی کا تقرر، کسی بنائو سنگار سے پاک بنیادی حقوق کاوجوداور اللہ کا ایسا نائب اور خلیفہ کہ جو خطبہ کے دوران سوال اُٹھانے والے عام آدمی کو زندان میں ڈالنے کی بجائے یہ جواب دینے کی جراُت رکھتا ہو کہ اس بات کا جواب میرا بیٹا دیگا ۔
تحریک آزادی کے دوران کانگریس کے منشور اور مقاصد میں جاگیر دارانہ نظام کا جڑسے خاتمہ اور ہر شخص کیلئے روزگار کی فراہمی اہم نقاط تھے جس نے عام آدمی کو تو اپنی طرف متوجہ کیا لیکن پنجاب کے جاگیرداروں میں خوف کی لہر پھیلادی جو آل انڈیا مسلم لیگ کے ان دعاوی پر پاکستان میں شمولیت کیلئے متفق ہو گئے کہ مسلم لیگ برابری کا نظام رائج کرنے کیلئے اُن سے جاگیریں واپس نہیں لے گی ۔نتیجتاً1937 میں برُی طرح ہارنے والی مسلم لیگ 1946میں پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔ بعدازاں حقیقی اسلامی نظریہ حیات کیلئے وعدے پورے کرنیوالی قیادت کی جاگیر دارانہ نظام کی واپسی کیلئے کوششوں کا صلہ ہم سب جانتے ہیں۔پاکستان کو جو حکمران ملے انہوں نے قرار داد ِ مقاصد کی جگہ اپنی قرارداد مفادات پر عمل کیا کہ جسٹس منیر سے لیکر PCO ججز تک اُس پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے رہے ۔ انسانی بنیادی حقوق کاتو پوچھیئے ہی نہیں! جاگیریں ایسی کہ کئی کئی شہر جاگیرداروں کی ملکیت ،سرمایہ ایسا کہ بیرون ملک سرمایہ داروں کے اکائونٹس کا کھوج لگانے میں بین الاقوامی ادارے بھی ناکام،قتل و غارت ایسی کہ دودفعہ سابق وزیراعظم کے قتل کا سُراغ نہ مل پائے۔
حضوروالا! یہ بات بھی حقیقت ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کیطرح آزادی کے معنی اور مقاصد سمجھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور جسکی وجہ سے حقیقتا ً قرارداد ِ مقاصد بھی موجود ہے اور پاکستان بھی انہی کے دم سے سلامت ہے اور رہے گا تاہم قبریں دو طرح کی ہیں ایک وہ جو بادشاہت کی واپسی اور سلامتی کیلئے اور دوسری وہ جو آزاد سرزمین اور فضا کیلئے ۔اول الذکر قرار داد مفادات جبکہ ثانی الذکر قرار دادِ مقاصد کو ظاہر کرتی ہے جو مصنوعی اور بناوٹی آزادی کے برعکس حقیقی آزادی اور احیاء کی علامت ہے۔

مزیدخبریں