قرار داد لاہور ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے؟

Mar 23, 2016

Chief Justice Mian Mehboob Ahmed

23؍مارچ 1940ء مسلم لیگ، پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری دن ہے۔ اس روز برصغیر کے کونے کونے سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اپنے عظیم قائد محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر مسلمانوں کی آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کے لیے قرار داد منظور کی جسے قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ قرار داد 1941ء میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اسی کی بنیاد پر سات سال بعد 14؍اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ سالانہ اجلاس 22سے 24 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں منعقد ہوا جسے آج کل اقبال پارک کہا جاتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اجلاس کی صدارت کی جس میں نواب سرشاہ نواز ممدوٹ نے خطبہ استقبالیہ دیا اور اے کے فضل الحق نے تاریخ ساز قرار داد لاہور پیش کی۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہو گا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہو گا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت حاصل ہو۔ مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرار داد کی تائید یو پی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزمان، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سرعبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔اس تاریخی موقع پر قائد اعظم نے خطبہ صدارت میں یہ واضح کر دیا تھا کہ ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اور اس کو اسی لحاظ سے حل کرنا چاہیے جب تک اس اساسی اور بنیادی حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا جو دستور بھی بنایا جائے گا وہ چل نہیں سکے گا اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ انگریزوں اور ہندئووں کے لیے بھی تباہ کن اور مضر ثابت ہو گا۔ قائد اعظم نے کہا کہ لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن، اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں اور اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اس طریق پر زیادہ سے زیادہ ترقی دیں جو ہمارے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ ہو۔

قرار داد پاکستان کوئی معمولی قرار داد نہیں تھی۔ قرار دادیں تو آئے دن منظور ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ وہ قرارداد تھی جو آٹھ دہائیوں کا لمبا، انتہائی کٹھن اور خون آلود سفر طے کرکے منظور ہوئی۔ یوں تو ہندوستان میں اسلامی قوت کا زوال 1707ء میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد شروع ہو گیاتھا لیکن یہ زوال اپنے نقطہ عروج پر 1857ء میں پہنچا جب بہادر شاہ ظفر کی زیر قیادت جنگ آزادی مکمل طور پر ناکام ہوئی اور ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا، سیاسی اقتدار چھن گیا، روزی کے ذرائع ختم ہو گئے، زمینوں اور جائیدادوں پر غیروں کا قبضہ ہو گیا، علم و ہنر کے راستے مسدود ہو گئے اور اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا کہ ہسپانیہ کی طرح ہندوستان میں اسلامی تہذیب و تمدن شاید معدوم ہو جائے یا مسخ ہو جائے۔
قرار داد لاہور کا کئی پہلوئوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے جس میں سیاسی، سماجی، معاشی و مذہبی پہلو قابل ذکر ہیں۔ قرار داد لاہور کا ایک طاقتور پہلو وہ جمہوری بیداری تھی جس کا سب سے پہلا مظاہرہ خود تحریک پاکستان تھی جس نے سات سال کے قلیل عرصے میں وہ زور دروں حاصل کیا کہ اسلامیان ہند نے 1945-46ء کے انتخابی معرکے میں تمام لسانی، مذہبی، سیاسی اور علاقائی گروہ بندیوں کو شکست فاش دی اور قائد اعظم کی چوکس اور ایماندارانہ قیادت اور علامہ اقبال کے فکری ولولوں کے تحت تمام مفاداتی رکاوٹوں کو پیس کر رکھ دیا اور بیک آواز ایک آزاد مسلم ریاست کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔
یاد رہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی مشکل حالات کے باوجود پاکستانی عوام نے کئی بار اپنی متحدہ قوت کا مظاہرہ کیا ہے جو سراسر قرارداد لاہور کے محرک جذبات و احساسات کی مرہون منت ہے۔ چار کڑے مارشل لاء عوامی طاقت کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ 1965ء کی جنگ اور 1998ء کے جوہری دھماکے کے موقع پر زبردست بیرونی دبائو کے باوجود قوم سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی اور جہاں تک 1971ء کے سانحے کا تعلق ہے اس میں عوام کا کوئی حصہ نہیں تھا بلکہ بنگلہ دیشی عوام نے جو تحریک پاکستان کا اثاثہ ہیں ہندوئوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام کرکے اپنا الگ وجود اب تک قائم رکھا ہے۔ طاقتور جذبات اخوت کے نقطہ نظر سے جدید دور میں شاید ہی کوئی ایسی ریاست ہو جس کے لوگوں نے اہل پاکستان کی طرح چالیس لاکھ افغانیوں اور دیگر علاقوں کے کئی لاکھ مہاجرین کی پذیرائی کرکے زبردست معاشی اور سماجی بوجھ ررداشت کیا ہو۔ یہ امر بھی کم اہم نہیں کہ ہم اکثر صوبائی، لسانی اور مذہبی جھگڑوں سے دو چار رہتے ہیں لیکن بحرانوں اور قومی کارناموں کے موقعوں پر حیران کن یکسانیت اور یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزاد عدلیہ کے لیے وکلاء کی صوبائی حدود سے ماورا تحریک اور 19؍مارچ کا عوامی لانگ مارچ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا۔ اسی طرح کشمیر کے زلزلہ زدگان کی مدد کا مسئلہ ہو یا 20/20 کرکٹ چیمپیئن شپ جیتنے کا کارنامہ، کراچی سے شمالی علاقوں تک ایک ہی جیسی دل کی دھڑکنیں سنائی دیں۔ عوامی طاقت کا ایک اور مظاہرہ حالیہ قومی انتخابات تھے جس میں عوام کی آزادانہ سوچ گروہی سوچوں پر حاوی ہو ئی۔ان تمام واقعات و خصوصیات کی بنا پر ڈیوک یونیورسٹی (Duke University) کے پروفیسر رالف برے بینٹی (Ralph Braibanti) کا کہنا ہے کہ 1945ء کے بعد نمودار ہونے والی ریاستوں میں کسی ریاست نے پاکستان جیسے ہولناک ہچکولے نہیں کھائے لیکن اس کے دوست اور دشمن سب حیران ہیں کہ یہ نہ صرف زندہ رہنے کی توانائیاں رکھتی ہے بلکہ اپنے مذہبی، تمدنی اور جغرافیائی رشتوں کی وجہ سے وسطی ایشیاء کا سب سے زیادہ متحرک، باسکت اور جدید دور کی خصوصیات کا حامل زمینی اور ثقافتی مرکز (Epicentre) ہے۔
(Journal of South Asia and Middle Eastern Studies, No.1, Fall)
پاکستان کو یہ سکت، یہ قوت اور یہ توانائیاں کہاں سے ملی ہیں؟ اپنے توحید پرست غریب عوام سے جنہیں مولانا ظفر علی خان ’’فرزندان توحید کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر‘‘ کہتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ قرار داد لاہور کی بنا پر جو ملک ہم نے حاصل کیا ہے وہ ابھی تک ہمہ گیر ترقی حاصل نہیں کر سکا۔ ہم نے صنعتی، زرعی اور تعلیمی طور پر اہم ڈھانچے تو تعمیر کر لیے ہیں اور عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے ملک گیر ادارے بھی قائم کر لیے ہیں لیکن اپنے عوام کو غربت، بے روزگاری اور جہالت سے نجات نہیں دلا سکے۔ یعنی صحیح معنوں میں ایک مضبوط، اسلامی، جمہوری اور فلاحی معاشرہ قائم نہیں ہو سکا۔ البتہ قدرت نے اس سلسلے میں ہمیں آگے بڑھنے کی تمام صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ایک بے بہا جغرافیائی محل وقوع دیا ہے۔ بھرپور معدنی، زرعی اور زمینی وسائل موجود ہیں۔ محنت کش اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل انسانی قوت بھی ہے۔ قوم ساز ادارے قائم ہیں، ستاروں پہ کمند ڈالنے والا ویژن یا نظریہ بھی ہے۔ قرار داد لاہور کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف آزادی کی دولت سے نہیں نوازا بلکہ آگے بڑھنے کی تمام صلاحیتیں دی ہیں۔ اس سلسلے میں قائد اعظم نے آزادی کی پہلی سالگرہ پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ قدرت نے پاکستان کو ہر شے دے رکھی ہے اور غیر محدود وسائل سے نوازا ہے۔ اب یہ ذمہ داری پاکستانیوں کی ہے کہ قدرت کی فیاضیوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اس سلسلے میں قائد کا یہ ویژن ہمارے سامنے رہنا چاہیے۔
قرار داد پاکستان سے متعلق جن کلیدی حقائق کا ذکر کیا گیا ہے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اس خطے میں جو توانائیاں اور آگے بڑھنے کے روشن امکانات رکھے ہیں وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام نوجوان نسلوں کو اس سے آگاہ کرے کیونکہ آگہی ایک ایسی قوت ہے جو رکاوٹوں کو پیس کر مردان خود آگاہ کو تیز قدم بنا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اس قرار داد نے استعمال پرستی پر کاری ضرب لگا کر قوموں کے لیے آزادی و حریت کی راہیں استوار کی ہیں اور بے شمار ریاستوں کو قومی شناخت عطا کی ہے ۔ یہ امور پاکستانیوں کیلئے باعث فخر ہیں اور اس بات کا کھلا اظہار ہیں کہ قرار داد لاہور کے پس منظر اور پیش منظر پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا سکتا ہے اس کو وطن عزیز کے حصول کی تاریخی جدوجہد کی بنیاد بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم اس کے مقاصد اور تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہیں تو ہمیں اپنے گزشتہ سفر پر غور کرکے آئندہ کے لیے نئے نشان منزل کا تعین کرنا ہو گا اور اگر ہمارا سفر درست سمت میں ہے تب بھی اپنی رفتار کا جائزہ لے کر ترقی اور خوشحالی کی منزل مقصود تک پہنچنے کے عزم کا اعادہ کرنا ہو گا۔
oo

مزیدخبریں