پاکستان کی اساس: دو قومی نظریہ

آل انڈیا مسلم لیگ کا 27 واں سالان اجلاس مارچ 1940ء لاہور میں ہوا۔ مسلمانان ہند کا ایک عظیم الشان اجتماع تھا جس کے لئے اقبال اپنی زندگی کے آخری ایام میں نہایت آرزومند تھے۔ اس اجلاس میں بتاریخ 23 مارچ مسلمانان ہند کے لئے مستقل مملکت کی قرار ادا منظور ہوئی۔ قائداعظم نے 22 مارچ کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں ہندو مسلم دونوں قوموں کے مختلف اور متضاد نظریات و روایات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
اسلام اور ہندو مت حقیقت میں محض مذہب نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف دو معاشرتی نظام ہیں اور متحدہ قومیت ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان میں ایک قوم کا غلط تصور حد اعتدال سے نکل گیا ہے اور آج ہماری بہت سے مشکلات کا باعث بن رہا ہے اوراگر ہم نے بروقت اپنے رجحانات کی اصلاح نہ کی تویہ چیز ہندوستان کی بربادی پر منتج ہوگی۔ ہندو اور مسلمان الگ الگ فلسفہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے۔ دونوں کا ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے، ان میں باہمی شادیاں نہیں ہوتیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے، حقیقتاً وہ دو الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر قائم ہیں۔ ان کا رویہ الگ ہے۔ ان کے مشاہیر الگ ہیں اور وہ ایک دوسرے سے مختلف تاریخی سرمایہ رکھتے ہیں، عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ان فتح و شکست مختلف حیثیتیں رکھتی ہیں۔وائسراے لارڈویول نے گاندھی کے بارے میں لکھا: ’’میرا تاثر یہ تھا کہ وہ وقتی طور پر دوستانہ جذبات کا اظہار کرتے تھے، مگر وہ کسی بھی وقت بات سے مکر بھی جاتے تھے، ان میں بزرگی یا مہاتما ہونے کا شائبہ تک نہیں‘‘۔
گاندھی نے دو قومی نظریے کی نفی کرتے ہوئے کہا: ’’میری تمام روح اس خیال کے مقابلے میں بغاوت کرتی ہے کہ ہندو دھرم اور اسلام دو مخالف تہذیبوں اور عقیدوں کا نام ہے، ہمارے نام کچھ بھی ہوں ہم سب ایک ہی خدا کے بچے ہیں۔ میں یقینا اس خیال کے خلاف بغاوت کروں گا کہ کروڑوں ہندوستانی جوکل تک ہندو تھے، اپنے مذہب بدلنے کی وجہ سے اپنی قومیت بھی بدل سکتے ہیں۔‘‘ گاندھی کی ان گمراہ کن تحریروں نے بہت سے کانگریسی ذہنیت کے حامل ان علمائے کرام کو متاثر کیا جو قائداعظم کے سیاسی مخالف تھے اور ملت کی اساس اسلام کی بجائے ہندوستانی قومیت کو قرار دیتے تھے۔ علامہ محمد اقبال نے اس موضوع پر نظم و نثر میں بکثرت لکھا اور احکام قرآنی کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ مسلمان معاشرے کی بنیاد وطنی قومیت نہیں بلکہ صرف اسلام ہے، چنانچہ اسی بنیاد پر نبی اکرم ؐ نے قریش مکہ سے جو آپ کے ہم زبان، ہم قبیلہ اور ہم وطن تھے سخت اختلاف کیا ، حتیٰ کہ جنگیں لڑیں۔ علامہ محمد اقبال کی اس دینی وضاحت کو برصغیر کے اکثر و بیشتر مسلمانوں نے ایک حقیقت سمجھ کر قبول کیا۔ سب سے بڑھ کر حضرت قائداعظم نے جونکتہ فہمی میں بے مثال تھے، علامہ اقبال کی اس توجیہ کو سمجھتے ہوئے اپنی سیاست کی بنیاد وطنی قومیت کی بجائے اسلام پر رکھی اور اسی پر انہوں نے انگریزوں، ہندوئوں اور کانگریسی علماء سے محاذ آرائی کی جو قطعی دلائل پر مبنی تھی۔مہاتما گاندھی نے قائداعظم کو لکھا: ’’آپ کو علیحدہ قوم ہونے کا دعویٰ فتح کی وجہ سے نہیں، بلکہ لوگوں کے قبول اسلام کی وجہ سے ہے، کیا اگر ہندوستان کے سب لوگ اسلام قبول کرلیں تو دونوں قومیں ایک ہوجائیں گی؟‘‘
قائداعظم نے دو روز بعد خط کا جوب دیا: ’’ہم اس نقطہ نظر پر قائم ہیں کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے دو بڑی قومیں ہیں۔ ہم دس کروڑ افراد پر مشتمل ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم اپنی مخصوص تہذیب اور تمدن، زبان اور ادب، فن اور معماری، نام اور القاب، اقدار اور تناسب، قوانین اور اخلاق، رسوم اور تقویم، تاریخ اور روایات، رجحانات اور خواہشات کی حامل قوم ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی اور اس سے متعلق تمام بین الاقوامی قوانین کی رو سے ہم ایک قوم ہیں‘‘۔
گاندھی جب قائداعظم کے مضبوط دلائل کے سامنے بے بس ہوگئے تواپنے ہر اصول کو چھوڑ کر تشدد کے ذریعے اسلامی تحریک کو کچلنے پر اتر آئے۔
4 اپریل 1946ء کو قائداعظم نے برطانوی کیبنٹ مشن سے ملاقات کی اور ہندوستان میں خودمختار اسلامی مملکت کی تشکیل کو ناگزیر قرار دیا۔ مگر کیبنٹ مشن اور کانگریس ایک جان ہو کر تشکیل پاکستان کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں پیدا کرتے رہے، لیکن قائداعظم اپنے ایمان راسخ اور دلائل قطعی کے ساتھ ایک پہاڑ کی طرح اپنے موقف پر قائم رہے، یہاں تک کہ تمام سرکش اور مخالف طاقتیں ان کے سامنے جھک گئیں۔ انگریزوں اور ہندوئوں نے مطالبہ پاکستان تسلیم کیا۔ 3 جون 1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے برصغیر کی آزادی اور پاکستان کے قیام کا واضح اعلان کیا۔7 اگست کو قائداعظم دہلی سے کراچی پہنچے جہاں ہزاروں افراد نے ان کا استقبال کیا۔ 10 اگست کو کراچی میں نو منتخب دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا۔ 11 اگست 1947ء کو پاکستان دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ قائداعظم نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا:
’’… آپ آزاد ہیں۔ آپ آزادانہ اپنے مندروں میں جاسکتے ہیں۔ آپ آزادانہ اپنی مسجدوں میں جاسکتے ہیں، مملکت پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جاسکتے ہیں، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ، ذات یا فرقہ سے ہو، اس کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
’’آج آپ ازروئے انصاف کہہ سکتے ہیں کہ برطانیہ میں رومن کیتھولکس اور پروٹسٹنٹس کا کوئی وجود نہیں۔ جو حقیقت آج ہے وہ یہ ہے کہ ہر آدمی برطانیہ کا ایک شہری ہے۔ یکساں درجے کا شہری ہے اور وہ سب ایک قوم کے افراد ہیں‘‘۔
’’ اب میرا خیال ہے کہ ہم اسی نقطہ نظر کو اپنے سامنے رکھیں کہ بتدریج ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی نقطہ نظر سے نہیں، کیونکہ مذہب تو ہر فرد کا ذاتی ایمان ہے، بلکہ سیاسی نقطہ نظر سے وہ ریاست کے شہری متصور ہوں گے‘‘۔
بتاریخ 14 اگست 1947ء نصف شی تا ئید الٰہی سے پاکستان قائم ہوا۔ شب 26 رمضان المبارک کی شب تھی‘ شب قدر اور صبح15 اگست جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا: تاریخی اسناد کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے حصول کیلئے جتنی بھی فکری اور عملی کوششیں کی گئیں‘ ان سب کی بنیاد صرف ایک تھی اور وہ اسلام تھا‘ قائداعظم محمد علی جناح نے جب بھی اور جہاں بھی علیحدہ مملکت کے حصول کا تقاضا کیا تو وہ صرف اس لئے کے کیا کہ اس کے بغیر اسلامی قوانین کا اجراء جو مسلمان کی زندگی کا ضامن اور نصب العین ہے‘ ممکن نہیں۔ ہندوؤں کی اکثریت اور مخالفت میں مسلمانوں کی مِلّی زندگی نہ تشکیل پا سکتی ہے اور نہ ہی اس کی حفاظت کی ضمانت دی جا سکتی ہے جب کہ وہ خود تعداد میں دس کروڑ ہوں۔
11 اگست 1947ء کے مندرجہ بالا خطبے کا مفہوم جیسا کہ بعض سیکولر ذہن کے دانشوروں اور قاضیوں نے سمجھا ہے‘ ہرگز یہ نہیں کہ پاکستان میں ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان نہیں رہیں گے‘ بلکہ ان الفاظ سے قائداعظم کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق مکمل طور پر محفوظ ہو نگے اور ہندو یا مسلمان کسی اور مذہب کے لوگ پاکستانی باشندے ہونے کے ناطے سے آئینی طور پر یکساں حقوق فرائض کے حامل تصور کئے جائیں گے۔ کوئی مخصوص مراعات حاصل نہیں ہو گی جو اسے ہندو یا عیسائی سے متماز کر سکیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی جمہوری اصول دین اسلام کی اصل واساس ہے جو عدل واحسان پر مبنی انسانی معاشرہ کی تشکیل کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر سید اکرم اکرام

ای پیپر دی نیشن