پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ، اعتزاز احسن، مولا بخش چانڈیو اور وغیرہ وغیرہ لوگوں کو بہت پریشانی ہے۔ مشرف دبئی چلے گئے مگر انہیں یہ پریشانی نہیں کہ کچھ عرصہ پہلے ’’صدر‘‘ زرداری بھی دبئی چلے گئے تھے اور اب تک نہیں آئے وہ عین موقعے پر آئیں گے۔ اسی طرح نہیں آئیں گے جیسے دبئی میں شہید بی بی انہیں الوداع کرکے پاکستان آئی تھیں۔ دوسری بار تو صدر زرداری نے انہیں خود بھجوایا تھا؟
مشرف کا پاکستان میں رہنا نہ رہنا برابر تھا ان کے لئے کبھی جیالے نہیں بولے۔ مشرف جہاں جائیں گے وہاں بھی ان کا رہنا نہ رہنا برابر ہو گا۔ مگر خورشید شاہ کو کیا پریشانی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’شیر کے ہاتھوں سے ہاتھی نکل گیا۔‘‘ مجھے نہیں معلوم کہ شیر نے کبھی ہاتھی کا شکار کیا ہو۔ اب ہاتھی کو کیا ہو گیا ہے؟ امریکہ والوں کو ہاتھی والا کہتے ہیں۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ ایک دفعہ ہاتھی کے ساتھ شیر نے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ اس نے سونڈ پہ رکھ کر اسے جھٹکا دیا تو شیر صاحب دور جا کے گرے۔ لنگڑاتے ہوئے ہاتھی کے پاس آئے اور بڑے ادب سے کہا۔ آپ کو معلوم نہیں کہ میں شیر ہوں جنگل کا بادشاہ۔ہاتھی نے بے نیازی سے کہا کہ نہیں مجھے معلوم نہیں ہے تو شیر نے مزید ادب سے کہا کہ پتہ نہ ہو تو کسی سے پوچھ لیا کرتے ہیں اور جواب سنے بغیر شیر چلا گیا۔ کیونکہ ہاتھی نے پھر سے سونڈ سیدھی کر لی تھی؟ دوسرے قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا صرف مشرف ہی ملک سے فرار نہیں ہوئے۔ نواز شریف بھی پارلیمنٹ سے فرار ہیں۔ بات اعتزاز احسن نے اچھی کی ہے مگر مولا بخش چانڈیو کو چودھری نثار کی فکر لگی ہوئی ہے اور ایان علی کے لئے بڑی پریشانی ہے۔ کہتے ہیں چودھری نثار نواز شریف کے ترجمان ہیں یا مشرف کے؟ پھر بولے مشرف کو جانے دیا گیا ہے اور ایان علی کو روکا جا رہا ہے۔ مگر چانڈیو صاحب مطمئن رہیں کہ ایان علی کو ان کے لئے نہیں روکا جا رہا۔ وہ یہاں رکنا ہی نہیں چاہتی۔ دبئی جا کے چانڈیو صاحب کے آقا اور لیڈر ’’صدر‘‘ زرداری سے ملنا چاہتی ہے۔
ایان علی کو روکے جانے کے حوالے سے ایک لطیفہ چانڈیو صاحب کے حسبِ حال ہے۔ ایک گارڈ سے ایک سردارنی نے پوچھا کہ میں باہر چلی جائوں۔ گارڈ نے کہا تم رکو۔ تم نے نہیں جانا۔ سردارنی بے چین کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ دوسرے لوگ اطمینان سے آتے جاتے رہے۔ جب اس طرف سردارنی نے اشارہ کیا۔ یہ پتہ نہیں کہ اشارہ اس نے آنکھ سے کیا یا ہاتھ سے کیا۔ گارڈ نے بے نیازی سے جواب دیا کہ ان لوگوں میں سے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا تھا؟ ایان علی کا قصور یہ ہے کہ اس نے چودھری نثار سے پوچھ لیا ہو گا؟
کہتے ہیں کہ مشرف کو دونوں شریفوں نے باہر بھجوایا ہے۔ پہلے نوازشریف نہیں مانتے تھے۔ وہ جنرل راحیل شریف کو لے کے سعودی عرب گئے تو وہاں معاملات طے پا گئے۔ جب نوازشریف کا کام نہ چل رہا ہو تو وہ کسی نہ کسی ملک میں جنرل راحیل شریف کو ساتھ لے جاتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی سعودیہ مشرف کے معاملے میں کردار ادا کرتا رہا ہے۔ نوازشریف نے سوچاکہ ہمیں شاید پھر بھی جلاوطن ہو کے جدہ جانا پڑے۔ مشرف نے بھی نوازشریف کو جانے دیا تھا۔ وہ سارے خاندان کو ساتھ لے گئے۔ باقی کا سازوسامان کلثوم نواز ساتھ لے گئیں ہم نے تب کلثوم نواز کا ساتھ دیا تھا وہ اب ان کا ساتھ دے رہی ہیں جو مشرف کے ساتھ تھے۔ سنا ہے مشرف کے باہر جانے کے لئے مریم نواز نے بہت ساتھ دیا ہے۔ شہبازشریف تحمل اور تدبر کے آدمی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ خواہ مخواہ ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہئے جن میں نہ فائدہ ہو نہ نقصان ہو۔ تو یوں کہو کہ مشرف کو تینوں شریفوں نے باہر بھجوایا مگر اس میں بہت سا کردار چودھری نثار کا بھی ہے۔ کسی نے نوازشریف کا نام نہیں لیا نام تو کسی نے راحیل شریف کا بھی نہیں لیا۔ شاید اس لئے کہ وہ بھی ’’شریف‘‘ آدمی ہیں ۔
پارلیمنٹ میں بھی چودھری نثار تابڑ توڑ حملے کرنے والوں کے حصار میں تھے۔ حیرت ہے کہ مشرف کے چلے جانے کے بعد اتنا شور شرابہ؟ ’’شرابہ‘‘ والے ہی شور مچاتے ہیں۔ سارا ایوان ہی پارلیمنٹ کا چودھری نثار کے مقابلے میں اکٹھا ہو جاتا ہے۔ مگر یہ شخص اکیلا ہی سب کو جواب دیتا ہے بلکہ لاجواب کرتا ہے۔ اس طرح ایوان میں دلچسپ باتیں بھی ہوتی ہیں۔
میں نے سنا ہے کہ چودھری نثار نے کہا ’’مشرف صحت کا بہانہ بنا کر گئے۔ ذمہ دار عدالت ہے‘‘ عدالت نے کہا تو ہم مشرف کو انٹرپول کے ذریعے واپس لائیں گے۔ یہ بھی بات میں نے سنی۔ سابق صدر کی صحت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اپوزیشن بالخصوص پیپلزپارٹی والے اتنے پاکباز اور جمہوریت پسند نہ بنیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کمزور تھے۔ اس لئے مشرف کے خلاف مقدمہ نہ چلایا نالائقی چھپانے کا یہ کیا جواز ہے؟ بی بی کے قتل کی ایف آئی آر میں مشرف کا نام تھا۔ان کی جمہوریت اور قانون پسندی کیوں نہ جاگی۔ پی ٹی آئی اب اعتراض کر رہی ہے۔ ان کے وکیل حامد خان عدالت میں آئے ہی نہیں ۔ پی ٹی آئی والے عمران خان کا یہ بیان پڑھ لیں۔ ’’مجھے چودھری نثار نے بچایا، ورنہ الطاف حسین نے ایم کیو ایم کو حکم دیا تھا کہ عمران خان کو قتل کر دو۔‘‘ چودھری صاحب نے یہ بھی کہا کہ پیپلزپارٹی والوں کو اس سلسلے میں ایان علی کیوں یاد آ رہی ہے اسے بھی دبئی بھجوا دیں گے۔ زرداری صاحب امریکہ سے دبئی نہیں آئے۔ چانڈیو کو اچانک خیال آیا کہ آرٹیکل 6 غیر آئینی ہے۔ چودھری نثار نے کہا کہ مشرف اتنے ہی غدار تھے تو این آر او کس نے کس کے ساتھ کیا تھا۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔ ہم نے مشرف سے واپسی کی گارنٹی نہیں لی۔ اسے واپس لانے کی کوشش کریں گے۔
آخر میں یہ حیرانی کی بات کہ ’’جنرل‘‘ مشرف سے کوئی ڈیل ہوئی ہے؟ جنرل مشرف سے کیوں ڈیل ہو گی؟ وہ نوازشریف سے کیا لین دین کر سکتے ہیں مگر یہ کامیابی تو جنرل مشرف کی ہے؟ کامیابی جنرل راحیل شریف کی ہے اور ڈیل بھی جنرل راحیل شریف سے ہوئی ہو گی۔ مجھے تو یہ ڈیل نہیں لگتی یہ تو گراں ڈیل ہے۔ ورنہ نوازشریف مشرف کو جانے نہ دیتے۔ اس حوالے سے وہ بول نہیں رہے۔ چودھری نثار اور شہبازشریف کے حوالے سے نوازشریف کو مبارک ہو؟