سینیٹ:آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور، مطلوبہ ارکان غیر حاضر، فوجی عدالتوں میں توسیع کے بل پر ووٹنگ مو¿خر

اسلام آباد (وقائع نگار +نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی کے بعد سینٹ نے پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017منظور کرلیا تاہم مطلوبہ ارکان کی عدم موجودگی کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے بل پر ووٹنگ موخر کر دی گئی۔ جے یو آئی (ف) کی مذہب کے نام کو دہشت گردی سےجوڑنے کے خلاف ترمیم ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کردی۔ سینٹ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف بھی شریک ہوئے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ حقیقت اس قانون اور ترمیم سے زیادہ تلخ ہے، صرف لفاظی سے کام نہیں چلے گا۔ مذہبی انتہا پسندی ہمارا سب سے بڑا تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دہشت گردی خفیہ طور پر ہورہی ہیں جیسے سےہون شریف حملہ ہوا۔ کچھ واقعات کھلے عام ہو رہے ہیں جیسے کل پنجاب یونیورسٹی کا واقعہ پیش آیا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ آئینی ترمیم کا تعلق پارٹی پالیسی کے ساتھ ساتھ ضمیر سے بھی ہے، پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دونگا مگر خود کو کم تر محسوس کرونگا۔ رضا ربانی کی زیر صدارت اجلاس ہوا، باقاعدہ آغاز پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے 28ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا، پختونخواملی عوامی پارٹی، بی این پی مینگل اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 28ویں ترمیم کی مخالفت کی۔ سینیٹر عطاءالرحمان نے کہا کہ مذہب اور اسلام کے نام کو اس بل سے نہیں نکالا جارہا، اس لئے ہم حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود اس ایکٹ کی مخالفت کررہے ہیں، بی این پی مینگل کے سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کی جانب سے کہتے ہیں یہ آئینی ترامیم ہمارے شایان شان نہیں لیکن جمہوری جماعت کے دامن میں بھی یہ بات آگئی کہ انہوں نے بھی اس قسم کی ترمیم منطور کروالی، اختیارت مکمل طور پر پارلیمنٹ کے پاس ہونے چاہئیں، اس طرح کے ایکٹ کی حمایت نہیں کریں گے جس سے کسی ڈکٹیٹر کے فلسفے کی بو آتی ہو۔ ارکان سینٹ کی مخالفت پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملی ہے، اب بھی قومی سلامتی کو دہشت گردی سے خطرہ ہے، اس صورتحال میں خصوصی اقدامات جاری رکھنے کی ضرورت ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح 2015میں آئینی ترمیم منظورہوئی تھی اسی طرح اب بھی ہو۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے گزشتہ آئینی ترمیم میں مذہب اور فرقے کے استعمال کے الفاظ تھے لیکن 28ویں ترمیم میں دہشت گردی میں مذہب اور فرقے کے نام کا غلط استعمال کا لفظ شامل کیا گیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اجلاس منگل28مارچ کو سہ پہر 3بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینے پر پارٹی سربراہ ممبر کو نااہل کرا سکتا ہے، 11یا 12پارٹی سربراہان کو اختیار ہے کہ وہ جیسے چاہیں آئین میں ترمیم کردیں، یہ انتہائی خطرناک اور سنجیدہ بات ہے۔ ترمیم میں پارٹی سربراہان کو دی گئی یہ پاور غلط ہے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی اورسینٹ سے منظوری کے بعد آئینی ترمیم کا بل ایوان صدر بھجوایا جائے گا، صدر مملکت ممنون حسین کے دستخط کے بعد یہ بل آئین کا حصہ بن جائے گا۔ ارکان کی اکثریت کا موقف تھا کہ چونکہ اس معاملے پر مزید بحث ہونی چاہئے اس لئے اس آئینی ترمیم کی فوری طور پر منظوری نہ دی جائے۔ بل کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ ایک ہفتے کے لئے کھٹائی میں پڑ گیا۔ فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ آج سیڈ ڈے (افسوسناک دن) ہے اور یہ ڈیموکریٹس اور پارلیمنٹ کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر الیاس بلور کا کہنا تھا کہ دوبارہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی نوبت آئے تو وہ دن دیکھنے سے بہتر ہے کہ انہیں موت ہی آ جائے۔ الیاس بلور نے اسامہ بن لادن کو شہید قرار دینے والوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے پاکستان میں شدت پسندی کو متعارف کروایا اسے کیسے شہید قرار دیا جا سکتا ہے۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ آج ایک بدقسمت دن ہے۔ بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں چیئرمین سینٹ نے سینیٹر اعظم سواتی کی تقریر کے دوران موضوع سے ہٹ کر بات کرنے پر انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ آج ایک بدقسمت دن ہے لیکن آپ موضوع تک محدود رہیں۔ چیئرمین سینٹ نے اعظم سواتی کا قابل اعتراض جملہ بھی کارروائی سے خذف کرا دیا۔ چیئرمین نے ایک موقع پر ایک سینیٹر کا موبائل بجنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ فون ضبط کر لیں گے۔ جبکہ ایک اور سینیٹر کو چیئرمین نے ایوان کے اندر پانی پینے سے روک دیا اور انہیں یاد دلایا کہ یہ قواعد کے خلاف ہے۔

ای پیپر دی نیشن