قائد اعظم ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے وہ اپنی قوت ایمانی کی بناءپر کفر کی طاقتوں کے سامنے زندگی بھر سینہ سپر رہے۔ سخت ترین کارزاروں میں بے تیغ لڑے اور فتح یاب ہوئے۔ مسلمانوں کی آزادی اور سربلندی کیلئے ان کی سیاسی ذہانت اور عملی جرا¿ت برصغیر کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ انکا ہر بیان اسلامی روح کا آئینہ دار اور واضح اظہار ہے۔ آپ نے للکار کر کہا:
”ہندﺅو اور انگریزو! تم دونوں متحد ہو کر بھی ہماری روح کو فنا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ تم اس اسلامی تہذیب کو کبھی نہ مٹا سکو گے جو ہمیں ورثہ میں ملی ہے۔ ہمارا نور ایمان زندہ ہے۔ ہمیشہ زندہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا“۔ (مرکزی اسمبلی 22 مارچ 1930ئ) کو قائد اعظم نے مسلم قومیت کی بنیاد کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا: ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے۔ نہ وطن ہے‘ نہ نسل ہے۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا۔ اس کی وجہ نہ ہندوﺅں کی تنگ نظری تھی، نہ انگریزوں کی چال یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا“۔ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 8 مارچ 1944ئ) ”ہم کوئی ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس کی رو سے ایک غیر مسلم اکثریت محض تعداد کی بناءپر ہم مسلمانوں پر حکومت کرے اور ہمیں اپنا مال بردار بنا لے۔“ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 1940ئ)
اگر ہم بعثت نبوی پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ تاریخ اسلام کا آغاز ہی دو قومی نظریے سے ہوا۔ یعنی ایک ملت کفر اور ایک ملت اسلام۔ قائد اعظم نے کہا: ”جہاں تک دو قومی نظریے کا تعلق ہے تو یہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اسی بنیاد پر ہوئی“۔ (25 اکتوبر 1947ئ) قائد اعظم نے فرمایا: ”اسلامی اقدار کو اپنانا انسانی ترقی کی معراج پر پہنچنے کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ ایک طرف قیام پاکستان کا جواز ہیں اور دوسری طرف ایک مثالی معاشرے کی تخلیق کی ذمہ داری ہیں۔ (26 مارچ 1948ئ)
قائد اعظم نے اپنے ایمان کی روح کا اظہار ان روشن الفاظ میں کیا: ”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے، جو ہمیں قانون عطا کرنےوالے پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے بنایا ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پررکھیں۔“ (14 فروری 1947ئ) اسلامیہ کالج پشاور میں نہایت صریح الفاظ میں فرمایا: اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ (13 جنوری 1948ئ) گاندھی نے 15 ستمبر 1944ءکو قائد اعظم کے نام ایک خط میں لکھا:
”مجھے تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس کیمطابق تبدیلی مذہب والے لوگ اور انکے خلاف اپنے اسلاف کو چھوڑ کر خود ایک قوم ہونے کا دعویٰ کر بیٹھیں۔ اگر ہندوستان و رود اسلام سے پہلے ایک قوم تھا تو اسے اپنی اولاد کی بڑی تعداد کی تبدیلی مذہب کے بعد بھی ایک قوم ہی رہنا ہو گا۔ ”آپ کا علیحدہ قوم ہونے کا دعویٰ فتح کی وجہ سے نہیں، بلکہ لوگوں کے قبول اسلام کی وجہ سے ہے۔ کیا اگر ہندوستان کے سب لوگ اسلام قبول کر لیں تو دونوں قومیں ایک ہو جائیں گی؟“
قائداعظم محمد علی جناح نے دو روز بعد خط کا جواب دیا کہ: ”ہم اس نقطہ نظر پر قائم ہیں کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے دو بڑی قومیں ہیں۔ ہم دس کروڑ افراد پر مشتمل ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم اپنی مخصوص تہذیب اور تمدن، زبان اور ادب، فن اور معماری، نام اور القاب، اقدار اور تناسب، قوانین اور اخلاق، رسوم اور تقویم، تاریخ اور روایات، رجحانات اور خواہشات کی حامل قوم ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی اور اس سے متعلق تمام بین الاقوامی قوانین کی رو سے ہم ایک قوم ہیں۔“ (جناح کری ایٹر آف پاکستان، ص 149) قائد اعظم کے تمام بیانات اس امر کے شاہد ہیں کہ پاکستان کی تشکیل کا واحد جواز اسلام تھا تاکہ مسلمان، ہندو راج سے محفوظ رہتے ہوئے قرآنی احکام کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ پاکستان دستور ساز اسمبلی کے دوسرے اجلاس میں قائد اعظم نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا:
”ہم اس نقطہ نظر کو اپنے سامنے رکھیں کہ بتدریج ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی نقطہ نظر سے نہیں، کیونکہ مذہب تو ہر فرد کا ذاتی ایمان ہے، بلکہ سیاسی نقطہ نظر سے وہ ریاست کے شہری متصور ہوں گے۔“ (تقاریر، بیانات اور پیغامات قائد اعظم، جلد اول، لاہور 1996ئ)
مندرجہ بالا تقریر کا مفہوم جیسا کہ بعض سیکولر (لادین) ذہن کے دانشوروں اور نابالغ سیاستدانوں نے سمجھا ہے۔ یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان میں ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، بلکہ ان الفاظ سے قائداعظم کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں تمام باشندوں کے حقوق یکساں طور پر محفوظ ہوں گے۔ سب باشندوں پر یکساں قوانین کا نفاذ ہو گا۔ کسی مسلمان کو بحیثیت مذہب کوئی مخصوص مراعات حاصل نہیں ہوں گی جو اسے ہندو یا عیسائی وغیرہ سے متمایز کر سکیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی جمہوری اصول دین اسلام کی اصل و اساس ہے جس سے عدل و احسان پر مبنی ایک اعلیٰ انسانی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
قائد اعظم کے اس بیان میں سیکولرزم لادینیت کا کوئی عنصر نہیں ہے۔ یہ ایک جمہوری نظام کا اعلان ہے۔ اس اعلان کو مزید سمجھنے کیلئے ”میثاق مدینہ“ کو پیش نظر رکھنا چاہئیے۔ میثاق مدینہ، بالتحقیق تاریخی اعتبار سے دنیا کا قدیم ترین تحریری آئین مملکت ہے۔ یہ وہ آئینی دستاویز ہے جو پہلی صدی ہجری میں حضرت محمد اور مدینہ منورہ (یثرب) کے باشندوں (مسلمانوں، یہودی، مشرک وغیرہ) کے درمیان طے پائی۔ میثاق مدینہ 47 شقوں پر مشتمل ہے۔ ذیل میں شق نمبر 25 درج کی جاتی ہے۔ جس کا ادراک اور جس کی تعمیل آج بے حد ضروری ہے۔ ”بنوعوف کے یہودی اپنے موالی سمیت مسلمانوں کےساتھ مل کر ایک امت ہونگے۔ یہود اپنے دین پر کاربند رہیں گے اور مسلمان اپنے دین پر۔ البتہ جس نے گناہ کیا وہ اسکے نتیجے میں خود اور اپنے گھر والوں کو تباہی میں ڈالے گا۔“ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد 21 ص 912) قائد اعظم محمد علی جناح کا بیان میثاق مدینہ ہی کا ترجمان ہے جسکی دفعات کامل رواداری، مذہبی آزادی اور حسن تعاون پر مبنی ہیں اور یہی اسلامی معاشرہ کی اساس ہے۔ قائداعظم نے ہر پہلو سے اسلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:”اگر کوئی چیز اچھی ہے تو عین اسلام ہے۔ جو چیز اچھی نہیں وہ اسلام نہیں، کیونکہ اسلام کا مطلب عین انصاف ہے۔“ (27 مارچ 1947ئ)
امریکی نامہ نگار سے انٹرویو میں کہا: ”ہم نے اسلام اور اسکے نظریات سے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے“ (فرور 1948ئ) ”پاکستان کی اقلیتوں کے افراد برابر کے شہری ہیں۔“ (کراچی ستمبر 1946ئ) ”ہمارا اللہ پر ایمان، اپنی ذات پر ایمان اور اپنی تقدیر پر ایمان ہے۔“ (9 فروری 1948ئ)
”میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ اپنی اپنی جگہ وحدتیں ہیں، لیکن میں پوچھتا ہوں کہ آپ وہ سبق بھول گئے جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیا تھا“ (ڈھاکہ 21 مارچ 1948ئ)”بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو جاتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔“ (القرآن)