لاہور (نوائے وقت رپورٹ) سابق صدر آصف علی زرداری نے حکومت کو آنکھیں دکھا دیں۔ حکومت کو اور وزراءکو دھمکی دے رہا ہوں۔ اس کو دھمکی دے رہا ہوں جس کے بال نہیں خراب ہوتے۔ ایسا نہ ہو سیف الرحمان کی طرح ان میں سے کسی کو میرے پیروں میں گرنا پڑے۔ چیئرمین نیب کی کیا حیثیت، کیا مجال ہے کہ مجھ پر مقدمے بنائے۔ انتخابی نتائج نہیں مانے مگر جمہوریت کی حمایت کی۔ میں حلف نہ لیتا تو کوئی اور آجاتا‘ بلا آجاتا کہ تم لوگوں سے جمہوریت نہیں چلتی۔ سیاسی شکار کرنے اسی پارلیمنٹ میں جائیں گے۔ شیخ رشید نے میرے ساتھ کھانا کھایا تھا شاید نمک کم تھا۔ سابق صدر زرداری نے کہا کہ حقانی سے جو کام لینا تھا وہ واشنگٹن میں سفیر بنا کر لے لیا۔ اب حقانی خود کو انٹیلیچکوئل اور واشنگٹن کالابسٹ سمجھتے ہیں۔ حسین حقانی سے ملاقات ہوئی نہ ملنا چاہتا ہوں۔ حقانی خود کو دانشور سمجھتے ہیں، انکی اور ہماری سوچ مختلف ہے۔ حقانی کی پاکستان مخالف باتوں سے متفق نہیں۔ پہلے بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں سال کی توسیع کی گئی تھی۔ پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ فوجی عدالتوں کی مدت سے متعلق ہماری تجویز کچھ دوستوں کو پسند نہیں آئی۔ ہم نے پہلے بھی دوستوں سے مشاورت کرکے فوجی عدالتوں کی ہم نے پہلے بھی اجازت دی تھی۔ اس بار بھی سیاسی جماعتوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کو سپورٹ کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی سپورٹ کا کہا تھا مگر بعد میں مو¿قف بدل دیا، فوج ہمارے کارکنوں کے قاتلوں سے لڑ رہی ہے۔ اگر حکومت سنجیدہ ہوئی تو دو سال میں ادارے مضبوط کر لے گی۔ پولیس کو صحیح بجٹ‘ رینجرز کو جدید ٹیکنالوجی ملے گی۔ البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دو سال میں یہ بغاوت ختم ہو جائیگی۔ بغاوت کو ہمیشہ اندر سے کم باہر سے زیادہ سپورٹ ملتی ہے۔ میرا اور بلاول کا اسی پارلیمنٹ میں آنے کا ارادہ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ موجودہ پارلیمنٹ کی مدت ایک سال رہ گئی ہے۔ میرے خیال میں جو انکوائری ہوئی اس میں عرفان اللہ مروت پر الزام ثابت نہیں ہوتا۔ بینظیربھٹو کی شہادت کے وقت ہم حواس میں نہیں تھے۔ اس وقت صفدر عباسی نے ایک بات کی جو مجھے بہت بری لگی۔ انہوں نے کہا کہ میری بہن بی بی پر فلم بنانا چاہتی ہے۔ دبئی سے مجھے ایک وکیل کا فون آیا کہ کیا میں نے بی بی کی شہادت پر بھارتی فلم بنانے کی اجازت دی ہے؟ بی بی شہید پر صرف ایک ہالی ووڈ کی ڈاکومنٹری فلم بنی ہے۔ ہمارے چار مطالبات میں سے 3نکات آگئے‘ ایک نہیں آیا‘ اسامہ جیسا ایشو ہمارے سامنے آیا۔ پارلیمنٹ نے اس کا مقابلہ کیا‘ ورنہ پتہ نہیں دنیا ہمارے ساتھ کیا کرتی۔ سرتاج عزیز نے اپنی کتاب میں کارگل کا ذکر کیا‘ میں نہیں سمجھتا جس حقانی نے یہ کہا ہے نہ ہی اس کو ویزا دینے کا اختیار تھا۔ حسین حقانی سے میری ملاقات نہیں ہوئی نہ ہوتی ہے۔ حسین حقانی اور ہماری سوچ میں بہت بڑا فرق آچکا ہے۔ کچھ لوگ بعد میں کچھ نہ کچھ روزگار ڈھونڈتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ تھا‘ رپورٹ کو عام کرنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ ہمیں براک اوباما سے بڑی امیدیں تھیں لیکن وہ توقعات پر پورا نہیں اترے۔ نیویارک کے سابق میئر اور کچھ دیگر شخصیات سے مل کر آیا ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ میاں صاحب کی کیا پالیسی ہے؟ ری پبلکن کی اپنی لابی اور سوچ ہے‘ ہمیں ان سے بھی کام لینا ہے۔ مجھے امریکہ میں انٹری نہیں چاہیے۔ میں نے کوئی ایسا کام نہیں کرنا صرف امریکیوں کو سمجھانا ہے۔ اوباما نے کبھی ڈسکس نہیں کیا کہ آگے کیا ہوگا۔ ہمارے ہاں تو خود کو مارنا ہی حرام سمجھا جاتا ہے۔ میں نے عام انتخابات کے نتائج کو نہیں مانا تھا، اب سب نے مانا کہ آر او الیکشن تھے۔ کوئی سیاستدان کسی ملک میں اکاﺅنٹ نہیں کھول سکتا، صرف میاں صاحب کھول سکتے ہیں۔ ملک کے ساتھ دھوکہ میرے ساتھ دھوکہ کرنے کے مترادف ہے۔ سوئس اکاﺅنٹ میں اگر پیسے ہیں تو کسی غیرملکی کے ہوں گے، کسی پاکستانی کے نہیں یہ کوشش کرتے ہیں لیکن میں ان سے خطرہ محسوس نہیں کرتا، میں نے جمہوریت کی حمایت کی، سوئس اکاﺅنٹ میں پیسے میرے تو نہیں‘ لطیف کھوسہ نے ایان علی کا کیس لیا تو انہیں باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے انٹرویوز ضرور لیے لیکن میں اینکر نہیں بنا۔پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ روز بھی لاہور میں مصروف گزارا اورملاقاتوں کا سلسلہ دن بھر جاری رہا۔ بلاول ہا¶س میں قمر زمان کائرہ، ندیم افضل کائرہ، تنویر اشرف کائرہ، جہانزیب برکی سمیت دیگررہنماﺅں نے ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے جیالے مانی پہلوان کوملاقات کیلئے بلاول ہاﺅس بلالیا۔ آصف علی زرداری کا اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک منصوبہ پیپلز پارٹی کا ویژن تھا ، ہم نے پارلیمنٹ اورجمہوریت کومضبوط کیاجس کو کمزور کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیںہونگی۔ انہوںنے ملاقات کرنیوالوں کو ہدایت کی کہ وقت تھوڑا ہے اسلئے ابھی سے انتخابات کی تیاریاں شروع کی جائیں اورگھر گھر پہنچ کر پیپلز پارٹی کا منشور اورپیغام پہنچایا جائے۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ لاہورکو مرکز بناکر الیکشن لڑیں گے اورمخالفین کو دکھائیں گے کہ پیپلز پارٹی کل بھی عوام کے دلوں میںبستی تھی آج بھی بستی ہے۔ انہوںنے کہاکہ بلاول بھٹو بھی بھرپور انتخابی مہم کیلئے تیار ہیں۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ (فنکشنل) پنجاب کے چیف آرگنائزر اور پیپلز پارٹی کے سابق رہنما چودھری ظہیر احمد پیپلز پارٹی میں واپس آ گئے۔ چودھری ظہیر احمد نے بھی بلاول ہا¶س میں آصف زرداری سے ملاقات کی۔ آصف زرداری نے کہا کہ چودھری ظہیر احمد جیسے ورکر پارٹی کا ضمنی اثاثہ ہیں۔ چودھری ظہیر احمد نے کہا کہ طویل عرصے بعد انہیں پارٹی میں واپس آنا اچھا لگ رہا ہے۔دریں اثناءسابق صدر آصف علی زرداری نے یوم پاکستان کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج کے روز ہمیں خود کو جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردینے کا عہد کر نا چاہیے اور انہی اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم مساوات اور عوام کی فلاح کے اصول بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب اختیار کرنے چاہئیں کیونکہ یہی خواب قائداعظم محمد علی جناح نے دیکھا انہوں نے کہا کہ یہ نہایت سنگین بات ہے کہ آج یوم پاکستان کے موقع پر ہم اپنی عدلیہ کی جگہ فوجی عدالتوں کو دے رہے ہیں کیونکہ کرمنل جسٹس سسٹم کمزور ہوگیا ہے ۔ اس لئے آج ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ جلد از جلد کرمنل جسٹس سسٹم کو درست کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مقصد کو ایک بڑا خطرہ ان انتہاپسندوں سے بھی ہے جو مذہب کے نام پر اپنا دقیانوسی، خواتین اور غیرمسلموں کے خلاف ایجنڈا عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ انتہاپسندوں سے آخری دم تک لڑتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم خود کو قائداعظم کے اصولوں کے وارث ثابت کر سکیں۔
زرداری