قرار داد پاکستان منزل مراد

پروفیسر عبدالحق
برصغیر میں مسلمانوں کا زوال و انحطاط اگرچہ ان کی اپنی بے تدبیری اور عاقبت نا اندیشی کے باعث تھا۔ مسلمان جو پہلے سے ہندومہاجنوں اور مارواڑیوں کی اقتصادی بد اعمالیوں اور چھینا جھپٹی کا شکار اقتصادی بد حالی کے بہت پیچھے رہ گئے تھے اب انگریز اور ہندو کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں مسلسل تباہی کا شکار تھے۔ چنانچہ انہی انتہائی نا مساعد حالات میںسر سید احمد خاںؒ کی تلقین کو پیش نظر رکھ کر محسن الملک اور وقار الملک نے اپنے اکابرین کے بتائے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے1906ء میں ’’ مسلم لیگ‘‘ کے نام سے مسلمانوں کے لئے ایک الگ سیاسی جماعت قائم کی۔ جس کے ذریعے منتشر مسلمانوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کا موقع ملا برسوں کی اس مسلسل جدو جہد کے نتیجے میںمسلمانوں کے یہ مفکر اقبالؒ ہی تھے جنہوں نے 1930ء میں الہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے میں یہ کہا تھا۔
’’ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک جیسا بنا دیا جائے، شمال و مغرب میں ہندوستانی مسلمانوں کو متحد حکومت کی تشکیل میں مجھے کم از کم شمال و مغرب کے ہندستانی مسلمانوں کا قطعی مستقبل نظر آتا ہے‘‘۔
بلا شبہ یہ اعزاز اقبالؒ کے حصے میں آتا ہے کہ انہی کے تصور پر مبنی ایک آزاد خود مختار مسلم وطن کے قیام کے لئے سب سے پہلا باقاعدہ جماعتی ریزولیشن 9اکتوبر 1938ء میں سندھ مسلم لیگ کانفرنس منعقدہ کراچی نے پاس کیا جس کی صدارت قائد اعظم نے فرمائی تھی اور اس کے لئے اتحاد اور تنظیم کی ضرورت پر زور دیا۔ انہی دنوں میرٹھ میں نواب زادہ لیاقت علی خان نے بھی مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اتحاد اور باہمی رابطوں پر زور دیا۔ ایک آزاد مسلم وطن کیلئے زور پکڑتا ہوا مطالبہ کسی ایک علاقے کا نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ ہندوستان کے مسلمانوں کے نمائندہ پلیٹ فارم سے یوںآواز بلند ہوئی کہ اسے ’’ نشان منزل‘‘ قرار دیا گیا۔
مارچ1940ء میں لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تو پنجاب میں خاکساروں اور صوبائی حکومت میں تصادم کے نتیجے میں بہت سے خاکساروں کی شہادت کے باعث فضا انتہائی کشیدہ اور سوگوار تھی اس ملکی سطح کے سالانہ اجلاس میں ہندوستان کے مسلمانوں کا سیاسی اور جغرافیائی مستقبل تشکیل دیا جانا تھا بہت ہی غیر معمولی اقدام تھا۔ قائد اعظم ؒ کی سر براہی میں 23مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں منعقدہ اجلاس میں مسلم بنگال سے لیگی نمائندہ مولوی ابو القاسم فضل الحق نے جس گرجدار آواز میںہندوستان کے سیاسی مسئلے کا حل اور ملک کی تقسیم کی قرارداد پیش کی اس کے الفاظ یہ تھے۔
’’ انتہای غور و خوض کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی رائے یہ ہے کہ کوئی آئنی منصوبہ بغیر اس کے اس ملک میں قابل عمل اور مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا کہ وہ مندرجہ ذیل بنیادی اصولوں پر مبنی ہو۔ یعنی کہ حد بندی کر کے اور ملکی تقسیم کے اعتبار سے حسب ضرورت رد و بدل کر کے مستقبل واحدوں کو ایسے منطقے بنا دیا جائے کہ وہ علاقے جن میں مسلمان بہ اعتبار تعداد اکثریت میں ہیں، جیسے ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصوں میں ، اس طرح یک جا ہو جائیں کہ وہ ایسی خود مختار ریاستیں بنیں جو واحد سے اندرنی طور پر با اختیار اور خود مختار ہوں۔
یہ کہ ان واحدوں میں اور ان علاقوں میں اقلیتوں کے لئے ان کے مذہبی ، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے حقوق و مفاد کے تحفظ کے لئے ان کے مشورے سے بقدر ضرورت مؤثر اور واجب التعمیل تحفظات معین طور پر دستور کے اندر مہیا کئے جائیں اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں کہ جہاں مسلمان اقلیت ہیں حسب ضرورت مؤثر اور واجب التعمیل تحفظات ان کے اور دوسری اقلییتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے حقوق و مفاد کی حفاظت کے لئے ان کے مشورے سے معین طور پر دستور کے اندر رکھے جائیں‘‘ قرار داد کے پیش کئے جانے کے بعد قائد اعظم نے اس عظیم الشان اجتماع سے جو صدارتی خطاب فرمایا اس سے تقسیم ملک کے مطالبے کی ایک شاعرانہ خواہش بالآخرایک حقیقت کا روپ دھار گئی۔
قائد اعظمؒ نے اس خطاب میں مسلم لیگ کے اصولی موقف کو واضح کرتے ہوئے بڑے زور دار لفظوں میں حکومت کو واضح کیا کہ ہمارے لئے ایسا کوئی بھی دستور جو ہماری مشاورت کے بغیر ہو گا نا قابل قبول ہو گا۔ اس موقع پر انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے بے معنی، ناممکن اور نا قابل عمل ہونے کی جانب بھی توجہ دلائی۔ اگرچہ انگریز سے نجات کے لئے متحدہ جدو جہد وقت کی ضرورت تھی لیکن یہ اتحاد اس دو قومی نظریے جو پاکستان کی اساس ہے اس سے متصادم تھا۔ قائد اعظم نے ہندوئوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس مصنوعی اتحاد کی اصلیت سے آگاہ کیا ار دونوں قوموں کے مابین مذہبی ، ثقافتی اور سیاسی تضادات کی نشاندہی کی۔
انہوں نے فرمایا:
’’ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو دھرم کی جدا گانہ نوعیت و ماہیت کو سمجھنے سے قاصر کیوں ہیں؟ اسلام اور ہندو دھرم محض دو الگ مذاہب ہی نہیں بلکہ حقیقت میں مختلف اور جداگانہ معاشرتی نظام ہیں۔ یہ محض ایک خواب ہے کہ ہند و اور مسلمان کبھی مل کر ایک مشترکہ قومیت تشکیل کر سکیں گے۔ متحدہ ہندوستان کی قوم کا غلط تصور حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے اور یہی ہماری بہت سی مشکلات اور مسائل کی اصل جڑ ہے۔ ہندو اور مسلمان مختلف مذہبوں ، فلسفوں، معاشرتی نظاموں اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ آپس میں شادی بیاہ نہیں کر سکتے نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ بلا شبہ یہ بالکل مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں جن کی بنیاد ایسے افکار و تصورات پر ہے جو ایک دوسرے کی ضد بلکہ اکثر متصادم رہتے ہیں۔ اکثر اوقات ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوتا ہے۔
قائد اعظمؒ نے اپنے اس بصیرت افروز خطاب میں مسلمانوں کے مطالبہ آزادی کے حوالے سے تقسیم ہند کو قدرت کا فیصلہ قرار دیا اور مثال دے کر واضھ کیاقومی ضروریات کے باعث ملک برطانیہ، آئر لینڈ، چکیو سلاواکیہ، اور پولینڈ جیسے ملکوں میں تقسیم ہوئے۔اس تاریخ ساز خطاب کے آخر میں قائد اعظمؒ نے مسلمانوں کے لئے آزادی و خود مختار خطہ ارضی کے مطالبہ کی غرض و غایت اور مقاصد کو بڑی وضاحت سے بیان کیا اور فرمایا:’’ لفظ ’’ قوم‘‘ کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن، اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اس طریق پر زیادہ سے زیادہ ترقی دیں جو ہمارے نزدیک بہترین ہو اور جو ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ اور ہمارے قومی مزاج کے مطابق ہو۔‘‘

ای پیپر دی نیشن