خالد کاشمیری
کرۂ ارض پر بسنے والے اسلامیان ہند نے 23مارچ 1940ء کوبیسویں صدی کے ایک عظیم مدبر سیاستدان حضرت قائداعظم کی زیرقیادت ایک تاریخ ساز اجتماع میں اپنے لئے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ پیش کرتے ہوئے اقبال پارک لاہور (منٹوپارک)کے وسیع وعریص سبزہ زار میںجو قرارداد منظورکی گئی تھی‘ اسے قرارداد لاہورکا نام دیا گیا۔ بعد میں یہ قرارداد پاکستان قرار پائی۔ درحقیقت اس قرارداد پاکستان کی بنیاد حکیم الامت علامہ اقبال کے اس تصور پر تھی جو انہوں نے 23مارچ 1940ء سے قریباً سات برس قبل آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد میں اپنے خطبہ صدارت میں پیش کیا تھا۔ اسلامیان ہند کی تاریخ سیاست کی دل افروز حقیقتوں میں سے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس نے تاریخ اسلامی کے اوراق کو جگمگا کر رکھ دیا۔ پھر دوسری حقیقت یہ بھی رونما ہوئی کہ قومی زندگی میں تاریخ ساز کردار ادا کرنے کی خاطر حمید نظامی مرحوم اور ان کے دوست چودھری رحمت اللہ اسلم (سی آر اسلم ) نے اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اس اخبار کے نام کی تلاش کیلئے حکیم الامت حضرت اقبال کے کلام ہی سے رہنمائی کیلئے رجوع کیا۔ جب انہوں نے کلام اقبال کی ورق گردانی کی تو ان کی نظریں بالآخر پیام مشرق کی ایک فارسی نظم پر ٹک گئیں۔ جس کا عنوان ’’نوائے وقت‘‘ ہے۔ چنانچہ گو ہر مقصود پاکر یہی نام اخبار کیلئے موزوں ترین قرار دیا گیا۔ 23مارچ 1940ء کے روز جب اسلامیان ہند کے فقیدالمثال جلسۂ عام میں قیام پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تواسی روز تصور اقبال کی روشنی میں نوائے وقت بھی مطلع سیاست پر پندرہ روزہ اخبار کی شکل میں طلوع ہوا۔
اخبار کیلئے یہ اعزاز تھا اس کے اولین شمارے میں صفحۂ اول پر ملت اسلامیہ کے رہبر حضرت قائداعظم کا ایڈیٹر نوائے وقت جناب حمید نظامی کے نام پیغام بھی شائع ہوا جس میں بابائے قوم نے اخبارکی کامیابی کیلئے دعا کے ساتھ ساتھ اس کے اجراء پر مبارکباد دی گئی تھی۔ صفحۂ اول ہی پر مفکرملت علامہ اقبال کے حوالے سے دانائے راز کے عنوان سے ممتاز سخنور حضرت حفیظ ہوشیارپوری کی ایک نظم تھی جس کا مقطع تھا؎
منتظر اُس مردحق کا ہے جہان بے ثبات
جس کا اک جلوہ ہو بنیاد فروغِ شش حیات
بانی نوائے وقت حمید نظامی کو بحیثیت ایڈیٹر23مارچ 1940ء کے تاریخی جلسۂ عام کی خود رپورٹنگ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔چنانچہ 29مارچ 1940ء کو نوائے وقت میں حمید نظامی نے لیل ونہار کے عنوان سے 23مارچ 1940ء کے اجتماع میں منظورکردہ قرارداد پاکستان کے حوالے سے اپنی قلمکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے لکھا تھا ،مسلم لیگ کے اجلاس لاہور نے اسلامی ہند کی سیاست کی تاریخ میں ایک اہم باب کا اضافہ کیا ہے۔ لیگ نے اپنی 37 سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ مسلمانان ہند کے سامنے ایک واضح اور غیرمبہم نصب العین رکھا ہے۔ اس قرارداد سے لیگ نے ایک بات کا فیصلہ کردیا ہے کہ جہاں تک مسلم لیگ کا تعلق ہے‘ وہ ہندوستان میں متحدہ قومیت کے نظریہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ مسلمان ایک علیحدہ قوم اور ہندو ایک علیحدہ قوم۔ اب اگر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین کوئی سمجھوتہ ہو تو اس کی بنیاد اسی اصول پر ہونی چاہیے کہ مسلمان ایک فرقہ نہیں بلکہ ایک مستقل قوم ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حمید نظامی مرحوم نے قرارداد پاکستان کی منظوری کے پانچ چھ روز بعد ہی جو بصیرت افروز تحریر لکھی تھی‘ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ یہ قرارداد پاکستان کی حقیقی روح کے عین مطابق تھی۔ یہی حضرت قائداعظم کی زیرقیادت اسلامیان ہند کی سیاسی قیادت کا مطمع نظرتھا اور یہی نظریہ حمید نظامی کیلئے سرمایہ حیات اور روزنامہ نوائے وقت کی قطعی اور حتمی پالیسی قرار پایا۔ روزاول سے لے کر تادم واپسی حمید نظامی نے اس نظریہ پر عملدرآمد کرنے کو جزوایمان کی طرح نبھایا۔ نوائے وقت اور حمید نظامی مرحوم نے قرارداد پاکستان کی مسلمانان برصغیر میں ترویج قیام پاکستان کی جدوجہد اور پھر تعمیر پاکستان کی کوششوں میں جو سرگرم کردار ادا کیا وہ اس حوالے سے قوم کی سیاسی تاریخ کا تانباک باپ ہے۔ حمید نظامی نے پاکستان کے پہلے فوجی طالع آزما ایوب خان کی مارشل لاء کی گھٹن میں جان ایسے وقت میں ہاردی جب آپ اپنے دیرینہ مخلص دوستوں کو ایک بار پھر منظم کرکے ایوبی آمریت کے خلاف ایک مؤثر تحریک کی ابتدا کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ مگر یہ بھی تاریخ کی انمٹ حقیقت ہے کہ حمید نظامی کے وفات پاجانے کے بعد ان کے جانشین چھوٹے بھائی جناب مجید نظامی نے بھی بانی نوائے وقت کی وضع کردہ پالیسیوں‘ نظریات اور صحافتی لائحہ عمل کو جزوایمان قراردیااور زندگی بھر حضرت قائداعظم واقبال کے افکار ہی کو عزیز ازجان رکھ کر ان پر عمل کیا۔ جناب مجید نظامی نے اپنی زندگی میں نہ صرف اپنے اپنے دور کے چار طالع آزماؤں بلکہ جمہوری آمریتوں کے ادوار میں بھی نظریۂ پاکستان حضرت قائداعظم واقبال کی تعلیمات، تعمیر پاکستان کی جدوجہد کے تقاضوں کا پرچم بلند رکھا۔اور آخری دم تک دو قومی نظریہ کی اس آب وتاب کو ماند نہ پڑنے دیا،جس کی بنیاد پر 23مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان منظورہوئی تھی۔پاکستان نے جس دوقومی نظریہ کی کھوکھ سے جنم لیا اسی نظریہ کے تحفظ کی خاطر دفاع پاکستان کو مضبوط ترکرنے کی خاطر اسے ایٹمی مملکت بنانے کی بھی ضرورت تھی۔ اس احساس کو قوم میں اجاگر کرنے کیساتھ ساتھ ارباب اقتدار میں اس کی ترغیب کی مثال جناب حمید نظامی کے عہد ادارت میں دیکھی جاسکتی ہے۔
1947ء کی پہلی سہ ماہی میں برصغیرکے مسلمانوں کیلئے پرآشوب دور تھا۔ غیر ملکی فرنگی حکمرانوں اور ہندو کانگریس کی ریشہ دوائیوں کیساتھ ساتھ اپنوں کی سازشیں بھی مسلمانوں کی لیڈرشپ کے بارے میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایسے میں موہن داس کرم چند گاندھی نے اپریل 1947ء کے دوسرے عشرے میں ہندوستان کے وائسرائے سے درخواست کی کہ وہ غیر ملکی لیڈروں سے بھی ملاقاتیں کریں۔ اسی مکارانہ چال کا مقصد وائسرائے سے ان مسلمان سیاستدانوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کرانا تھا جو کانگریس کے چندے پر پل رہے تھے اور تحریک پاکستان کے زبردست مخالف تھے۔ مگرحمید نظامی نے 13اپریل 1947ء کے اداریئے میں اس سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا: ’’جو مسلمان لیڈرگاندھی کی سفارش پر بلایا جائے گا‘ وہ مسلمان لیڈر ہوگا یا کانگریس کا خیمہ بردار! مسلمانوں کی نمائندگی کی حقدار جماعت وہی ہے جسے مسلمان یہ حق بخشیں۔وہ زمانہ جاتا رہا جب انگریز اور ہندو اپنے اپنے گماشتوں اور جی حضوریوں کو مسلمانوں کی قیادت کی خلعت عطا فرمایا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے لیڈر خود مسلمان ہی منتخب کرتے ہیں۔ انگریز اور کانگریس دونوں کو انہی لیڈروں سے بات چیت کرنی پڑے گی۔
یہ واقعہ تحریک پاکستان کی راہ میں مسلمان قیادت کے بارے میں ابہام پیدا کرنے کی سازش سے تعلق رکھتا ہے جس کا برمحل حمیدنظامی مقابلہ کرتے رہے۔ نوائے وقت کی عنان ادارت جناب مجید نظامی کے ہاتھوں میں تھی اور معاملہ پاکستان کو بھارت دشمن خوفناک سازش سے بچانے کا تھا اور ایٹمی دھماکہ کرکے ہی یہ مقصد حاصل ہوسکتا تھا۔ اس حوالے سے پاکستان کو اپنے ہی بزعم خود دانشوروں اور نام نہاد سینئر صحافیوں کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ انہی دنوں ایک بڑے اردو اخبار کے مستقل کالم میںیہ تک لکھا گیا۔
شاعر‘ مغنی‘ کالم نگار‘ اداریہ نویس‘ خطیب اور مقررکسی بھی قوم کی ضرورت ہیں‘ لیکن صرف اور صرف ان الفاظ کے ذریعے ہم کوئی جنگ نہ لڑسکتے ہیں نہ جیت سکتے ہیں۔ اگرکسی شخص کا خیال ہے کہ اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے سال کے ایک دن بس ایک دھماکہ کافی ہے تو اسے نرم سے نرم الفاظ میں سادہ لوح ہی کہا جائے گا۔
اور اس کے اگلے ہی روز نوائے وقت کے مدیراعلیٰ جناب مجید نظامی نے اسلام آباد میں منعقدہ آل پاکستان اخبار فروش فیڈریشن کے عہدیداروں کی تقریب حلف برداری میں تقریرکرتے ہوئے کہا کہ یہ اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انڈیا ایسا پڑوسی دیا جس کی کوکھ سے پاکستان نے جنم لیاہے۔ کیونکہ ہم باعزت قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں جب تک کشمیرکا مسئلہ حل نہیں ہوتا بھارت سے کوئی تعلق نہ رکھیں‘ خواہ پچاس برس گزرجائیں۔ قرآن حکیم کا حکم ہے کہ گھوڑے تیار رکھو اگر نوازشریف نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو عوام ان کا دھماکہ کردیں گے۔یہ حقیقت اس عہد کی عمدہ مثال ہے جس کا پرچم حمید نظامی کے بعد جناب مجید نظامی بھی آخری دم تک سربلند رکھا۔یقینا روزنامہ نوائے وقت اس نظریاتی اساس پر آج بھی قائم ہے۔
نظریۂ پاکستان کے مخالفوں کیلئے للکار
Mar 23, 2017