کشمیر کے مسئلے پر ایوب خان کے زمانے میں جب حالات خراب ہوئے تو بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ رات کی تاریکی میں اس امید پر کیا گیا تھا کہ صبح کو ہم لاہور پر قابض ہو جائیں گے اور باغ جناح کے جم خانہ کلب میں جشن منانیں گے لیکن افواج پاکستان رینجر اور عوام نے تاریخ میں پہلی بار اتحاد اور قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کی لاہور جو شاعروں ادیبوں اور دانش وروں کا شہر ہے 65ء کی جنگ میں ایسے ایسے قومی ترانے لکھے اور گائے گئے جو ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔ نور جہاں، مہدی حسن، شوکت علی اور بے شمار دوسرے گلوکار ہمیشہ یاد رکھے جائینگے۔ 65ء کی 17 روزہ جنگ روس کی مداخلت پر سیز فائر پھر تاشقند میں امن معاہدہ جو سراسر بھارت کے مفاد میں تھا ۔ بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری خوشی برداشت نہ کرسکے اور چل بسے۔ ہندوستان میں حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن کوئی ایک حکومت بھی ایسی نہیں آئی جس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہو ہر حکومت پنڈت نہرو کے طے شدہ ایجنڈے پر عمل کرتی رہی اس زمانے میں لیاقت نہرو معاہدہ سائن ہوا تھا اس معاہدے کے تحت یہ یقین دلایا گیا تھا کہ دونوں ملک اقلیتوں کے ساتھ برابر کا سلوک کریں گی لیکن افسوس بھارت نے ایک دن بھی اس معاہدے پر عمل نہیں کیا۔ ایوب خان کے زمانے میں پنڈت نہرو نے نہایت چالاکی کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کیا اور اس طرح بیاس، راوی، اور ستلج تین دریا بھارت کو دے دیئے گئے اسکے بدلے میں دریائے سندھ کے پانی کو مختلف نہریں بنا کر ان علاقوں کو پانی فراہم کرنا تھا لیکن پاکستانی حکمرانوں نے نہ تو ڈیم بنائے او نہ ہی اس طرف توجہ دی کہ اپنے علاقوں میں پانی کی فراہمی ممکن بنائے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ حکمران ہمیں یہ نوید سناتے نظر آتے ہیں کہ آئندہ چند سالوں میں ہمارا ملک ریگستان بن جائے گا دوسری طرف مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور اس کی جماعت کے دوسرے رہنمائوں کے ’’چھ نکات‘‘ تخلیق کئے یا انہیں بھارت نے اس راستے پر لگایا کہ وہ مغربی پاکستان سے مطالبہ کریں کہ وہ ’’چھ نکات‘‘ کے تحت آئین بنائے 1970ء میں یحییٰ خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں کی قومی اسمبلی میں برابر کی سیٹیں ہوں گی اس وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے ایک فیصد زیادہ تھی کہتے ہیں کہ تاریخ میں یہ وہ واحد الیکشن تھا جس میں دھاندلی نہیں ہوئی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے دوسری کسی جماعت کو الیکشن لڑنے ہی نہیں دیا۔ بھارتی تخلیق ’’مکتی باہنی‘‘ سے مل کر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا گیا اس طرح مشرقی پاکستان کی تمام سیٹیں عوامی لیگ نے حاصل کر لیں۔ اس عرصے میں عوامی لیگ کی جلاوطن حکومت کلکتہ بھارت میں قائم کر دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو جو مغربی پاکستان کی اکثریتی پیپلز پارٹی کے قائد تھے نے شیخ مجیب سے طویل مذاکرات کئے ڈھاکہ بھی گئے اور اسے یہاں تک آفر کی کہ میں تمہارے ساڑھے پانچ نکات مان لیتا ہوں تم میرا آدھا نکتہ ’’متحدہ پاکستان‘‘ تسلیم کرلو اس نے صاف انکا رکر دیا، کہا میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے کلکتہ میں بیٹھے عوامی لیگ کے لیڈر جو فیصلہ کریں گے وہ ہوگا ان کا فیصلہ ہے کہ ’’چھ نکات‘‘ میں سے ایک کومہ بھی کم نہیں کیا جاسکتا۔ مجبوراً وہاں ملٹری ایکشن ہوا خون خرابے کے بعد پاک افواج نے ہتھیار ڈال دیئے ہندوستان کے آرمی چیف اروڑا کے ساتھ جنرل نیازی کی ہتھیار ڈالتے ہوئے تصویر مغربی پاکستان کیلئے دکھ اور تکلیف کا باعث بنی۔ اب نریندر مودی بھارتی وزیراعظم نے ڈھاکہ کی ایک تقریب میں جس کی صدارت حسینہ واجد کر رہی تھیں صاف لفظوں میںکہہ دیا کہ بھارتی افواج نے مکتی باہنی کی روپ اپنا رت (خون) بہایا ہے ہتھیار ڈالنے کے بعد پاکستانی افواج کے تقریباً ایک لاکھ فوجی بھارت کے قیدی ہوگئے تھے ادھر مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے بھارت کے ساتھ شملہ میں مذاکرات ہوئے مجھے ذاتی طور پر ملک معراج خالد صاحب نے جو اس وقت بھٹو صاحب کے ساتھ تھے بتایا کہ بھٹو صاحب نے شملہ پہنچتے ہی پاکستانی وفد کے تمام ارکان کو یہ کہا کہ ہمارے ایک لاکھ سے زیادہ جوان زمین پر سو رہے ہیں ہم یہ بیڈ استعمال نہیں کریں گے زمین پر سوئیں گے۔ اندرا گاندھی کے ساتھ مذاکرات ہوئے لیکن بے نتیجہ رہے رات کسی وقت الوداعی ملاقات کیلئے بھٹو صاحب اندرا گاندھی سے ملے اور کہا کہ آپ نے میرے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے سوائے جنگ کے۔ اب مجھے اپنے عوام کو ایک طویل جنگ کیلئے تیار کرنا ہے۔ میری خواہش تھی کہ برصغیر میں عوام کی خوشحالی کا سفر طے کریں لیکن آپ کی ضد نے ہمیںمجبور کردیاہے ہم ایک ہزار سالہ جنگ کی تیاری کریں گے۔ بھٹو کی یہ دھمکی کام کر گئی رات تین اور چار بجے کے دوران قیدیوں اور علاقوں کی واپسی کا معاہدہ طے پا گیا اور اس طرح بھٹو صاحب دوسرے معاملات کی طرف متوجہ ہوگئے۔ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ را نے اپنے راستے سے پہلے مجیب الرحمن کو ہٹایا اور حسینہ واجد کے ذریعے چن چن کر پاکستانیوں کو پھانسی کی سزا دلوا رہا ہے۔ بھٹو صاحب نے برسراقتدار آتے ہی بھارت کی جارحانہ حرکتوں کے توڑ کیلئے ایٹمی پروگرام بنایا یہ پروگرام پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا کیونکہ بھارت ایٹمی پروگرام پر عمل کر رہا تھا جبکہ امریکہ کے اتحادی پاکستان پر دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ ایسا نہ کرے ہنری کیسنجر نے بھٹو صاحب کے نام ایک خد لکھا اس نے بھٹو صاحب کو دھمکی دی لیکن بھٹو صاحب قومی مفاد میں فیصلے کرتے رہے حتیٰ کہ اسلامیک سربراہ کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کیلئے امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے اسلامک ممالک کے سرکردہ سربراہوں کو مروا دیا جو مسلمانوں کی اقوام متحدہ بنانے کی فکر میں تھے ساتھ ہی بھٹو صاحب کو بھی اس کی سزا بھگتنا پڑی۔ عالمی پنجابی کانفرنس کے امن مشن کے ساتھ دو مرتبہ بھارت جانے کا موقع ملا چندی گڑھ میں ایک سیمینار ہوا ۔ چوٹالہ صاحب چیف منسٹر ہریانہ جو اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے نے سرکاری طور پر کھانے کا اہتمام کیا تھا اس موقع پر بھارت کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے پروفیسرز سے ملاقات کا موقع ملا ان سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے احساس ہوا وہ تو سارے کے سارے پاکستان دشمنی میں یوپی کے پنڈتوں سے بھی چار قدم آگے ہیں۔ میںنے کہا کہ ہم یہ سمجھتے تھی کہ سائوتھ کے لوگ کھلے ذہن کے مالک ہوتے ہیں اور وہ یوپی کے پنڈتوں کی طرح متعصب نہیں ہیں لیکن آپ تو پاکستان دشمنی میں پنڈتوں سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔ بھارت پاکستان سے رقبے اور آبادی میں 10 گنا بڑا ملک ہے۔ اس طرح اسکے وسائل بھی زیادہ ہیں اور اس کی مدد کیلئے امریکہ اور اسکے اتحادی اس کے ہم نوا ہیں ان حالات میں پاکستان کے حکمرانوں، دانش وروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب سے پاکستان بنا ہے بھارت نے پاکستان کو دبانے اور اس کو نقصان پہنچانے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ان حالات میں پاکستان کو اپنی حکمت عملی تیار کرنا چاہیے بالکل اسی طرح جو عرب ملکوں کے درمیان چھوٹے سے اسرائیل نے اپنی حکمتِ عملی تیار کی ہے وہ جس عرب ملک میں جو چاہتا ہے کرتا ہے بالکل اسی طرح ہمیں بھی عوام کو منظم کرکے دشمن کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ ایک ایک پاکستانی اپنی فوج کے ساتھ ہے۔ بھارت کو سمجھانے کیلئے اسی کی زبان میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں پاکستان سے بہت زیادہ مسائل ہیں اسکی ریاستوں میں مسلح جدوجہد جاری ہے پاکستان کو ان کی مدد کرنا چاہیے۔ ویسے بھی خطہ میں امن کیلئے بھارت کا تین چار خود مختار ممالک میں مزید تقسیم ہونا ضروری ہے۔ بھارت نے راجستھان کے اس علاقے میں دھماکے کئے جو پاکستان کے بارڈر کے ساتھ ہے یہ ظاہر کیا کہ ہمیں پاکستان پر برتری حاصل ہوگئی ہے ادھر پاکستانی سائنس دان بھی اپنا کام مکمل کئے بیٹھے تھے کہ ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا پاکستان کا ایٹمی پروگرام کیونکہ فوج کی تحویل میں ہے اس لیے وہ اب تک محفوظ ہے۔