علامہ اقبال اورتشکیل پاکستان

علامہ محمد اقبال ہمارے قومی رہنما ہیں، وہ حکیم الامت ہیں، شاعر مشرق اور سب سے بڑھ کر ہمارے وطن عزیز پاکستان کے فکری خالق ہیں۔ ہم ان پرجتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ انسانی تاریخ یقیناً اس امر کی مثال پیش نہیں کر سکتی کہ ایک شاعر دنیا کی ایک عظیم مملکت کا فکری مؤسس ہو اور اس کے نظریات اتنے جاندا ر ہوں کہ قلیل مدت میں وہ ایک مجسم حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آ جائیں۔ اقبال عظیم مسلمان مفکر تھے۔ اسلامی جمہوریت کے عظیم علمبردار تھے۔ فرد اور معاشرہ کی آئینی آزادی کے مبلغ تھے۔ قرآنی نظام حیات کو نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ تمام عالم انسانی کیلئے نجات دہندہ تصور کرتے تھے۔ انہوں نے دنیا کے دو بڑے عصری نظاموں یعنی سرمایہ داری اور اشتراکیت کو واضح الفاظ میں انسانی معاشرے کیلئے مضر قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور فرمایا کہ یہ دونوں نظام افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ راہ اعتدال صرف وہ ہے جو ہمارے لیے شارع علیہ السلام نے متعین فرمائی ہے اور عالم انسانی کی بقا صرف اسی کو اختیار کرنے میں ہے تاکہ ایک جماعت دوسری جماعت پر غالب نہ آ جائے۔ انسانوں کے اپنے وضع کردہ نظامات ذاتی حرص اورگروہی ہوس سے خالی نہیں ہوتے چنانچہ اسکے نتیجے میں آج بڑی طاقتیں کمزور اقوام کا اسی طرح استحصال کر رہی ہیں جیسے وہ استعماری دور میں کرتی تھیں۔ موجودہ دور بھی ان کا استعماری دور ہی ہے۔ علامہ اقبال کی تعلیمات کا دوسرا اہم پہلو عالم اسلام کا اتحاد ہے جسکے وہ زندگی بھر داعی اور مبلغ رہے۔ ترکی افغانستان، ایران، فلسطین، کشمیر اور دیگر مسلمان ممالک کی طرف ان کی خصوصی توجہ رہی۔ وہ مدینہ و نجف کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سُرمہ قرار دیتے تھے۔ حرم انکی سجدہ گاہ تھی، ان کا دل حجاز سے تھا زبان شیراز سے تھی۔ تہران کو مشرق کا جنیوا دیکھنا چاہتے تھے۔ بخارا، کابل اور تبریز کو اپنی آنکھوں کی روشنی سمجھتے تھے۔ کوفہ و بغداد اور دجلہ و فرات انکے کلام میں اسلامی تاریخ کے واضح استعارات ہیں۔ انہیں تمام عالم اسلام سے غیر معمولی محبت تھی۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کیلئے ان کا دل سب سے زیادہ غمناک تھا کیوں کہ اگر باقی سب اسلامی ممالک ایک استعماری پنجے میں گرفتار تھے تو برصغیر کے مسلمان دو شدید منتقم طاقتوں کی استبداد کا نشانہ بنے ہوئے تھے اگر انگریزوں کے جانے سے ہندوستان آزاد بھی ہوتا تھا تو مسلمان ہندوئوں کے انتقام کا ہدف بنتے تھے لہٰذا بعض مسلمان ہندوستان قومیت کو اپنے لیے راہ نجات تصور کرتے تھے۔ وہ ایک حقیر اقلیت بن کر زندہ رہنا اپنا مقدر سمجھتے تھے۔ یہ وقت مسلمانوں پر بہت ہی تشویشناک تھا۔ علامہ اقبال نے نہایت بصیرت سے ایک علیحدہ آزاد وطن کاتصور پیش کیا جو اس قدر صحیح اور جاندار تھاکہ تھوڑے ہی عرصے میں قائداعظم کی بے مثال قیادت میں ایک مجسم حقیقت بن گیا۔یہ عظیم الشان کارنامہ اسلام کی مضبوط بنیاد پر ہوا۔ علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کی حفاظت اور سربلندی کیلئے اس امر کا بھی اظہار فرمایا کہ تمام مسلمان ممالک اپنی اپنی جگہ اپنے وسائل کے مطابق اپنے آپ کو مستحکم کریں اور پھر ایک بین الاقوامی مسلم اتحاد کی تنظیم بنائیں جو انکے سیاسی اور اقتصادی مسائل حل کرے اور مسلمان اقوام کو مکہ معظمہ کی موجودگی میں جنیوا وغیرہ سے بے نیاز کر دے۔ اگر مسلمان ممالک اپنے وسائل کو مجتمع کر لیں تو مسلم ممالک کے اکثر و بیشتر اقتصادی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ آج سیاسی مسائل کی اصل اقتصادی مسائل ہی ہیں۔ غریب اور کمزور قومیں ازخود مسائل حل نہیں کر سکتیں۔ اس لحاظ سے عالم اسلام کا اتحاد ناگزیر ہے اور آج یہی ایک راستہ ہے جس سے مسلمان نہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ اقوام عالم کے سامنے سر اٹھا کر چل سکتے ہیں:
سبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کا عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان دل و جان سے مسلمان ہو جائیں اور صدق و صفا اور حق گوئی و بیباکی کو اپنا شیوہ و شعار بنائیں۔ ایک دوسرے کی مدد اور معاونت کریں۔ اسی عمل سے ہمارا معاشرہ صحیح اسلامی معاشرہ بن سکتا ہے۔ البتہ اس عمل کیلئے ہمیں اپنے آپکو بدلنا ہو گا۔ انسان میں تبدیلی محض باہر سے نہیں آتی بلکہ اسکے ضمیر کے تبدیل ہونے سے تبدیلی آتی ہے۔ قرآن مجید کے حکم کیمطابق ’’اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کونہ بدلیں‘‘ یہ فطرت کا اصول ہے اور یہی زندگی کا درس ہے۔ مکتب اقبال سعی و عمل اور کوشش و کار کا درس دیتا ہے۔ عصر حاضر کے سیاسی، اقتصادی اور نظریاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ تعلیم ہے۔ اس میدان میں ہم بہت پسماندہ ہیں۔ ہمیں اس وقت ایک مجاہدانہ روح کے ساتھ فروغ تعلیم کیلئے کام کرنا چاہئے کیونکہ ترقی کا یہی ایک ذریعہ اور زینہ ہے۔ اقبال جو ایک عظیم عالم ہیں اور ان کی غیر معمولی آفاقی حیثیت بنیادی طور پر تعلیم ہی سے ہے۔ آج دنیا میں آبرومندانہ زندگی بسر کرنے کیلئے عصری تقاضوں کے مطابق ہمیں سائنسی علوم اور جدید ٹیکنالوجی کی اشد ضرورت ہے، اقبال کے نزدیک یہ علوم و فنون اسلامی تہذیب ہی کے عطا کردہ ہیں اور اُسی کا تسلسل ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اسکا استحکام اسکے نظریے کے استحکام سے وابستہ ہے، کیوں کہ وطن عزیز کی اساس کسی مخصوص قومیت پرنہیں بلکہ خالصتاً اسلامی ہے۔

ڈاکٹر سید اکرم اکرام

ای پیپر دی نیشن