وزیر صحت یاسمین راشد کے بجائے وزیر قانون راجہ بشارت نے لیڈی ہیلتھ ورکرزکے ساتھ مذاکرات کئے۔ راجہ بشارت تجربہ کار اور سینئر ترین وزیروں میں سے ہیں۔ وزیر صحت یاسمین راشد نجانے کہاں تھیں۔ ہم راجہ بشارت کے شکر گزار ہیں۔ وہ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھی ہیں۔
پچھلے سال الیکشن سے پہلے لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ہڑتال کی تو وہ محمود الرشید کو ساتھ لے گئی۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ دھرنے میں محمود الرشید اور ثروت روبینہ زمین پر بیٹھ گئے۔ ثروت روبینہ نے بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے مجھے میسجز بھیجے کہ ہم پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گی۔ محمود الرشید نے ہڑتالیوں کو جوس پیش کئے تھے۔ وزیر صحت کو چاہئے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرزکی بات سنیں عورتوں کا ہڑتال کرنا اور مال روڈ پر دھرنا دے کے بیٹھنا بہت معیوب ہے۔ ہڑتال پر لیڈی ہیلتھ ورکرز کئی دنوں سے سڑک پر تھیں۔ وہ وہاں سوئی بھی تھیں۔ یہ بات عورتوں کے لیے زیب نہیں دیتی۔ اب تو یہ ہڑتال ختم ہو گئی ہے۔ یہ پہلے بھی ختم ہو سکتی تھی۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز تعلیم یافتہ خواتین ہیں۔ معمولی تنخواہوں پر وہ کام کرتی ہیں۔ بے روزگاری میں اسی کو غنیمت سمجھ لیتی ہیں۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ آجکل ایک خاتون وزیر صحت ہے۔ ہسپتالوںمیں صفائی کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ گائنی کے وارڈز جس طرح کسمپرسی کا شکار ہیں وہ ان کی توجہ کے زیادہ مستحق ہیں۔
نامور علمی و ادبی خاتون شاعرہ عمرانہ مشتاق بہت سرگرم اور مستعد ہیں۔ پہلے بھی تحریک انصاف کے دفتر میں ایک بہت زبردست ادبی تقریب اور مشاعرہ میری صدارت میں 20 مارچ کوہوا تھا۔ یہاں تحریک انصاف کے نمایاں رہنما عمر خیام موجود تھے۔ وہ آج بھی موجود تھے۔ تب عمر خیام نے کہا تھا کہ میں نے ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ وہاں بھی صدارت ڈاکٹر اجمل نیازی نے کی تھی۔ آج بھی صدارت انہی کی ہے۔
عمر خیام بہت مرتبے کے مقرر ہیں۔ ایسے مقررین تحریک انصاف میں ہیں تو کامیابیاںاس کی منتظر ہیں۔ اس طرح کے ساتھیوں سے فائدہ اٹھانا عمران خان کیلئے ضروری ہے۔آج کی تقریب میں بھی صدارت میری تھی اور سب سے اعلیٰ مقرر عمر خیام ہی تھے۔ سٹیج حسب معمول عمرانہ مشتاق کے پاس تھی اور میں ہمیشہ کہتا ہوںکہ کسی تقریب کی پذیرائی اور کامیابی کا دارومدار کمپیئرنگ پر ہوتا ہے۔ ان تقریبات کی کمپیئرنگ عمرانہ مشتاق کے پاس ہوتی ہے۔ تقریب کا اہتمام عمرانہ مشتاق نے کیا تھا۔
معروف شاعر حفیظ شہزاد ہاشمی کی کتاب ’’میری آنکھیں نم رہتی ہیں‘‘ کی تقریب رونمائی بھی تھی۔ کتاب کا نام بہت خوبصورت ہے اور شاعری بھی دلگداز ہے۔ کتاب کے حوالے سے واحد مضمون حفیظ طاہر کا تھا۔ وہ ٹی وی پروڈیوسر بھی تھا۔ بہت بھرپور تقریب تھی۔ اچھی باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد محفل مشاعرہ ہوئی۔ تقریباً تمام حاضرین مشاعرہ پڑھنا چاہتے تھے۔ مگر عمرانہ مشتاق نے محفل کو اپنے ہاتھ سے نکلنے نہ دیا۔ کمپئرنگ کے دوران عمرانہ ایک عدد مختصر سی تقریر بھی کر لیتی تھی۔ اس لئے محفل کنٹرول میں رہی۔
اس کے بعد محفل موسیقی بھی ہوئی۔ اس طرح ایک محفل میں تین محفلیںتھیں۔ یہ بھی عمرانہ مشتاق کا اعجاز ہے کہ اتنی طویل محفل کو سنبھالے رکھا۔ اور سب دوستوں نے ماحول کو انجوائے کیا۔ عمر خیام نے کہا کہ یہ تقریب سیاسی بھی ہے اور ادبی بھی۔ تقریب کو سیاسی بنانے والے عمر خیام تھے مگر ان کی گفتگو میں ادبی رنگ بھی ہوتا ہے جو ماحول کو رنگارنگ بنا دیتا ہے۔
محفل موسیقی میں حفیظ شہزاد ہاشمی کی غزلیں گائی گئیں۔ گلوکاروں نے سماں باندھ دیا۔ یہ اچھی محفل دیر تک جاری رہی۔ محفل میں معروف شاعر اور ادبی شخصیت اعتبار ساجد بھی سٹیج پر موجود تھے۔ انہوں نے تقریر کی اور کلام سنایا۔
تحریک انصاف کے دفتر میں ادبی سرگرمیاں خوش آئند ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کے دفتر میں اس طرح کی محفلیں ہونا چاہئیں تاکہ ادب و صحافت کے رشتے سیاست کے ساتھ بھی مضبوط ہوں۔اس کیلئے ہم خاص طورپر عمرانہ مشتاق کے شکر گزارہیں۔ عمر خیام بھی ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔