23مارچ یوم پاکستان اور حب الوطنی کے تقاضے

حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے کہ ’’وطن سے محبت جزو ایمان ہے ‘‘۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ایک بار ایک شخص آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺنے اس سے مکہ مکرمہ کے بارے میں پوچھاجب وہ شخص مکہ شہر کا حال بیان کر رہا تھا تو آپ ﷺکی چشم مبارک آنسووں سے تر ہو گئیں،اپنی دھرتی ماں سے پیار انبیاء کرام ؑکی سنت بھی رہی ہے ۔حضرت سیدنا موسیٰؑ نے بڑی دعائیں کروائیں اور بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی فتح کی ترغیب دیتے رہے ۔ حضرت ابراہیم ؑ بھی جذبہ حب الوطنی سے لبریز تھے چنانچہ یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ حب الوطنی ایک فطری جذبہ ہے اور اپنے ملک کی محبت انسان کے خمیر میں ہوتی ہے ۔آج 23مارچ کا دن ایک بار پھر ہم سے سوال کرتا ہے کہ کیا پاکستان اس مقصد کیلئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں غداروں کو اعزازات و ایوارڈ سے نوازا جائے اور جنہوں نے پوری زندگی اپنے دیس کیلئے وقف کر رکھی ہے انہیں پاکستان سے محبت کی سزا کی پاداش میں بے توقیر کیا جائے اور پوری دنیا میں ان کو تمسخر بناکر رکھ دیا جائے ۔ پاکستان ہمارے نبی آقا دوعالم حضرت محمد ﷺ کی بشارت کے نتیجے میں ملا ہے ۔پاکستان اور اسلام ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ عالمی استعماری طاقتوں نے پاکستان کو تجربہ گاہ بنا رکھا ہے جہاں کبھی عورت مارچ کا تجربہ ہوتا ہے اور کبھی اعتدال پسندی اور روشن خیالی کی آڑ میں لال انقلاب کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے لئے نوجوان طبقے کو جھانسے میں لایا جا رہا ہے اس کی ذہن سازی کی جارہی ہے کہ پاکستان کے خلاف آواز اٹھائے گا اسے اتنی ہی پذیرائی ملے گی ، باقاعدہ ایک منظم سازش کے تحت نوجوانوں کے دل ودماغ سے نظریہء پاکستان کو مٹایا جا رہا ہے تاکہ ان میں جذبہ حب الوطنی ماند پڑ جائے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں چانکیائی سازشوں کو سمجھنا ہو گا جس کے مطابق آپ کا پڑوسی آپ کا دشمن ہے اور پڑوسی کا پڑوسی آپ کا دوست ہے اور ہمارا ازلی دشمن بھارت اسی چانکیائی اصول پر مسلسل عمل پیرا ہے ۔
قائداعظم محمد علی جناح نے ایک مرتبہ علی گڑھ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔’’پاکستان اْسی دن معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان کا پہلا غیر مسلم، مسلمان ہوا تھا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے نہ کہ وطن اور نسل‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں بلکہ درحقیقت مختلف معاشرتی نظام ہیں یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف لفظوں میں کہتا ہوں یہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں‘‘۔ 23مارچ 1940ء تحریک پاکستان کا نقطہ آغازہے کیونکہ اس میں قرار داد پاکستان منظور ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کے حصول کی جدوجہد کا عملی آغاز ہوا۔ لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے3 روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور ہوئی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ برصغیر میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے حصول کے لئے صرف 7 برس میں اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس تاریخی اجلاس میں شیربنگال مولوی فضل الحق نے تاریخی قرارداد پیش کی جو قیامِ پاکستان کی بنیاد قرار پائی، یہ قرارداد پیش کرتے ہوئے مولوی فضل الحق شیربنگال نے کہا ’’قرار پایا کہ غور و خوض کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی یہ رائے ہے کہ کوئی بھی آئینی منصوبہ بغیر اس کے اس ملک میں قابل عمل اور مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔جب تک وہ مندرجہ ذیل بنیادی اْصولوں پر مبنی نہ ہو، یعنی یہ کہ جغرافیائی حیثیت سے ایسے متصل علاقے جن کی ضرورت کے مطابق ملکی لحاظ سے اس طرح حدبندی کر دی گئی ہو کہ جن علاقوں میں تعداد کے اعتبار سے مسلمانوں کی اکثریت ہے، جیسا کہ شمال مغربی اورمشرقی حصوں میں ہے۔ وہ خودمختار اور بااختیار ہوں اور یہ کہ ان علاقوں اور منطقوں کے اجزائے ترکیبی میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے حقوق کے تحفظ کیلئے معقول موثر اور واجب التعمیل تحفظات معین طور پر دستور میں داخل کیے جائیں، جن سے ان کی مذہبی، ثقافتی اور سماجی حقوق کا تحفظ ہو سکے‘‘۔ یاد رہے کہ مسلمانوں نے اپنے لئے الگ وطن کی بنیاد دو قومی نظریے کو قرار دیاتھا اور یہ نظریہ اسی وقت وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلے غیر مسلم نے اسلام قبول کیا ۔
پاکستان کا قیام یقیناً بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی فہم و فراست، تدبر، خلوص اور دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔علامہ اقبال کا خواب اور قائد اعظم کا تصورِ پاکستان ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھاجہاں جمہوریت کا بول بالا اورحکومت عوام کو جوابدہ ہو،جہاں انسانی حقوق کا تحفظ ہونے کے ساتھ ساتھ آزادی و خودمختاری اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔کیا آج ہم اپنے وطن عزیز کو ایک آزاد، خود مختار، مستحکم اسلامی وفلاحی ریاست بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیںاگر نہیں تو پھر اس کی بنیادی وجوہات کون سی ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا صرف جواب ہی نہیں چاہئے بلکہ ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے آئندہ کیلئے ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے جامع اور ٹھوس پالسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔قیامِ پاکستان کے وقت ہم ایک قوم تھے لہٰذا اللہ رب العزت کی مدد و نصرت ہمارے شاملِ حال ہوئی لیکن صرف25برس بعد ہی باہمی چپقلشوں اور ذاتی مفادات کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آگیا اور ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔آج باقی آدھے ملک میں ہماری قومیت کروڑوں افراد کے بے ہنگم ہجوم میں کھو چکی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن