23مارچ کا دن ہماری ملکی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔یہ دن مسلمانان برصغیر کی منزل مراد کے تعین کے فیصلے پر مشتمل تھا ۔اس دن ہونے والے فیصلوں کی پشت پر صدیوں پر محیط حکمرانوں کی حکمت مبلغین اسلام کی محنت و فراصت بزرگان دین کا تقوی اور حسن سلوک ، مجاہدین کا شوق شہادت شامل تھا ۔ حضرت قائد اعظم نے فرمایا کہ جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا دو قومی نظریے نے جنم لے لیا ۔برصغیر میں مسلمانوں اور ہندئوں کا رہن سہن سماجی اور سیاسی طرز فکر میں ایک امتیازی فرق محسوس ہوتا جو اتنا واضح تھا کہ اقوام عالم میں مثال نہیں ملتی ۔ مسلمان فاتح مسلسل ہندوستان پر حملہ آور ہوتے جن میں محمد بن قاسم نے 712ء میںسندھ پر حملہ کرکے شمال مغربی ہند پر حکومت قائم کی۔مسلسل فاتحین کے ہندوستان آنے کا فائدہ ہوا کہ چھوت چھات اوراونچ نیچ کے مرض میں مبتلا ہندو معاشرہ مسلمانوں کے حسن سلوک اور اسلام کے برابری کی روایت اور اصول سے متاثر کر جوق در جوق نیچی ذات کے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے جس کو بھارت کے پہلے صدر راجندر پرشاد نے اپنی کتاب انڈیا ڈیوائڈڈ میں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ مسلم فاتحین کا مثبت طرز عمل مجموعی طور پر بڑی رواداری کا مظہر تھا ۔ ہماری آج کی نسل موجودہ منظرنامے کو دیکھ کر اس تعصب سے روشناس ہوئی جو انہوں نے مسلمانوں سے اس وقت روا رکھا تھا ۔جب مسلمان محکوم ہوگئے تھے مسلمانوں کی سینکڑوں مزاحمتی تحریکوں کے بعد حضرت سرسید نے مفاہمت کی تحریک چلاکے وقت کا دھارا بدل دیا ۔آپ کی علیگڑھ کی علمی تحریک کو مفکرین پاکستان کا نکتہ آغاز قرار دیتے ہیں کیونکہ علی گڑھ تحریک نے مسلم ہند میں جو آزادی کی تڑپ پیدا کی اس کی روح آل انڈیا مسلم لیگ میں نظر آتی ہے جو 1916میں لکھنو پیکٹ ،1929میں حضرت قائداعظم کے چودہ نکات بعدازاں 1930میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد میں حضرت علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطبے میں مسلمانان ہند کے لئے علیحدہ ارض وطن کا مطالبہ ہی نہیں کیا بلکہ اس قطعہ زمین کی نشاندہی کی جہاں مسلمان عددی اکثریت میں قیام پذیر تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ صوبہ پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست بنا دیا جائے ۔ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے خواہ حکومت اس کے باہر مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک منظم اور اجتماعی ریاست قائم ہو۔خطبہ الٰہ آباد کے کچھ عرصہ بعد ہی مسلم زعما ء ہندنے حضرت قائداعظم کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جو ان دنوں سیاست سے کنارہ کش ہو کر ولایت میں اپنی وکالت کا لوہا منوا چکے تھے ۔ علامہ اقبال کے پے درپے خطوط اور لیاقت علی خان کے اصرار پر وطن لوٹ کر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔آپ نے برصغیر کے طول و عرض کے دورے کرتے ہوئے مسلم لیگ کو منظم کیا ۔1936ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو واضح کامیابی نہ مل سکی مگر مسلمان ایک مضبوط قوم ثابت ہوئے ۔ 1938ء میں سندھ مسلم لیگ نے قرار داد منظور کی جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم دونوں وفاقوں میں تقسیم کیا جائے اس قرار داد میں آل انڈیا مسلم لیگ سے سفارش کی گئی کہ آئینی تجویز پیش کریں کہ مسلم اکثریتی صوبے اور ریاستیں ایک وفاق کے تحت کام کر سکیں لہذا آل انڈیا مسلم لیگ نے 26مارچ 1939کو نواب اسمعیل خان کی رہائش گاہ میرٹھ پر اجلاس میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی۔یہ کمیٹی تمام دستوری تجاویز اور سکیموں کا جائزہ لینے کے بعد مجلس عاملہ کو رپورٹ پیش کرے ۔ مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلا س منٹو پارک لاہور میں ایک وسیع وعریض میدان میں قائداعظم کی زیر صدارت ہوا جس میں برصغیر کے کونے کونے سے مسلم زعما لاہور پہنچنا شروع ہوگئے ۔ ایک وسیع و عریض پنڈال میں ساٹھ ہزار کے قریب نشستیں لگیں علاوہ ازیں پنڈال اور اس کے باہر ایک جمع غفیر تھا ۔لوگ اپنے قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قرار تھے ۔پنڈال کو رنگین محرابوں اور جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا ۔ہر جانب صدائے اللہ اکبر سنائی دیتی اور سبز ہلالی پرچم دکھائی دیتے ۔ اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے ایک قرار داد پیش کی اور ہر صوبہ سے صوبہ کے نمائندہ نے اس کی تائید کی ۔ … (جاری)