ایک اور تئیس مارچ کی ضرورت!!!!!

Mar 23, 2020

محمد اکرم چوہدری

آج تئیس مارچ ہے، یہ تاریخ ہر سال ہمیں انیس سو چالیس کو منٹو پارک میں منظور کی گئی ایک قرارداد کی یاد دلاتی ہے۔ ایک ایسی قرارداد جس نے مسلمانان برصغیر کی زندگی کا مقصد بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایک ایسی قرارداد جس نے مسلمانان برصغیر کو ایک لڑی میں پرو دیا، ایک ایسی قرارداد نے مسلمانان برصغیر کو ایک نئی منزل دکھائی، ایک ایسی قرارداد جس نے دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ انیس سو چالیس کے تئیس مارچ کے بعد دنیا نے چودہ اگست انیس سو سینتالیس کا وہ تاریخی دن بھی دیکھا جب پاکستان دنیا کے نقشے پر الگ ملک کی حیثیت سے نظر آیا۔
ہمارے بزرگوں نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مختصر وقت میں الگ وطن کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ بابائے قوم کی زندگی کا مقصد مسلمانان برصغیر کے لیے الگ وطن کا قیام تھا۔ ان کی جدوجہد صرف اور مسلمانوں کی آزادی کے لیے تھی۔ دنیا میں ایسی تاریخی جدوجہد نظر نہیں آتی جہاں متحد ہو کر اسلحے اور جنگ کے بغیر علیحدہ ملک کا حصول ممکن ہوا ہو۔ ہمارے بزرگوں نے دن رات محنت کی، لے کے رہیں گے پاکستان، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ ان نعروں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور ہم آج ایک آزاد و خود مختار ملک کے شہری کی حیثیت سے زندگی گذار رہے ہیں۔ کتنی قربانیاں دی گئیں، ہجرت کے وقت بہنے والے خون، پامال ہونے والی عزتوں، نیزوں پر لٹکائے گئے معصوموں کا کوئی حساب نہیں ہے۔ یہ وہ قربانیاں تھیں جو بزرگوں نے ہمارے بہتر مستقبل کے لیے دیں۔ وہ تکالیف اٹھائیں کہ جن کا ہمیں کوئی احساس بھی نہیں ہے۔ اتنی بھوک اور پیاس برداشت کی ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ وطن کتنی بڑی نعمت ہے اور کتنا بڑا تحفہ ہے بدقسمتی سے ہمیں اسکا بھی احساس نہیں ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے انگریز اور ہندو گٹھ جوڑ میں زندگی گذاری ہے، تعصب دیکھا ہے۔ تنگ نظری کا مقابلہ کیا ہے درحقیقت وہی جانتے ہیں کہ پاکستان نہ بنتا تو آج ہمارا کیا حال ہوتا۔ وہ لوگ جنہوں تقسیم اور ہجرت کا وقت دیکھا ہے ان سے پوچھیں تو پتا چلے کہ آزاد ملک کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہم تو وہ ہیں جو سونے کے چمچ لے کر پیدا ہوئے۔ بزرگوں کی قربانیوں سے الگ اور آزاد وطن میں پیدا ہوئے والدین کی محنت کی وجہ سے
پر آسائش زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں کیا معلوم تعصب، استحصال، قربانی، وسائل کی عدم دستیابی، سہولتوں کی کمی اور مذہبی بنیاد پر نفرت انگیزی اور تنہائی کیا ہوتی ہے۔ نہ ہم اپنی تاریخ کو سامنے رکھتے ہیں نہ بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں نہ ان کے شکر گزار ہیں نہ انہیں سراہتے ہیں۔ آج بھی وطن عزیز میں ایسے کم ظرفوں کی کوئی کمی نہیں ہے جنہیں نہ علامہ اقبال پسند ہیں نہ وہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی عزت کرتے ہیں۔ وہ دو ہستیاں جنہوں نے ہماری نسلوں کی آزادی کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ان کے بارے میں اپنے منفی اور تعصب سے بھرے فلسفے کو پیش کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ان کے ماننے اور سننے والوں کی عقل پر بھی ماتم کرنے کو دل کرتا ہے، ان کی حمایت کرنے والوں اور انہیں اظہار رائے کی آزادی کا نام دینے والوں کی عقل پر بھی ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
وہ لوگ جنہیں پاکستان کے قیام، علامہ محمد اقبال اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح پر اعتراض ہے۔ وہ کشمیر میں پانچ اگست دو ہزار انیس سے کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن اور کرفیو کو دیکھ لیں تو شاید احساس ہو جائے کہ پاکستان کا قیام کتنا ضروری تھا۔ پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو بھارت کا شہریت بل اور اس بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف دہشت گرد نریندرا مودی حکومت کے مظالم سے سبق حاصل کریں پھر بھی تسلی نہ ہو تو بھارت کے سرکردہ سیاست دانوں کے بیانات پڑھ لیں جو یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ جناح کا دو قومی نظریہ جیت رہا ہے۔ یہ حالات واقعات اور بھارتی حکومت کے ہندوتوا کے فلسفے کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ہمیں یہ احساس دلا رہے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہم تیسرے درجے کے شہری ہوتے یا کسی بھی درجے کے شہری نہ ہوتے بس قابل رحم ہوتے۔ یہ جو بڑے بڑے گھر ہیں، عمارات ہیں، باغات اور شاپنگ مالز ہیں، بڑی بڑی گاڑیاں ہیں، ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر اور بحری جہاز ہیں، محلات اور فارم ہاوسز ہیں، لگڑری گاڑیاں اور ہوٹلز ہیں، بہترین لباس ہیں، اچھی اچھی سڑکیں اور انواع و اقسام کے کھانے ہیں۔ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کے اثاثے ہیں یہ سب پاکستان کی بدولت ہیں الگ اور آزاد وطن نہ ہوتا تو یہ سب ہندوؤں کی ملکیت ہوتا اور ہم سب ان کے ملازم ہوتے۔ جو پاکستان کے قیام پر فضول دلائل دیتے ہیں وہ بھی ہندوؤں کی ملازمت میں کہیں سر جھکائے فائلیں اٹھائے کھڑے ہوتے۔
آج تئیس مارچ تو وہی ہے۔ وہی تاریخ ہے ویسے ہی سورج طلوع ہو گا ویسے ہی غروب ہو گا۔ ویسے ہی سب سوئیں جاگیں گے لیکن ہمیں آج ایک ویسے ہی تئیس مارچ کی ضرورت ہے جو ہمیں ایک قوم بنا دے، ہمیں آج ویسے ہی تئیس مارچ کی ضرورت ہے جو ہمیں ذاتی مفادات بھلا دے، ہمیں متحد کر دے، ہمیں نئے جذبے دے، ہمیں ایک نئی سوچ دے، ہمیں ملک کی محبت دے، ہماری زندگیوں میں لالچ، حرص ختم کر دے۔ ہمیں اس تیئس مارچ کی ضرورت ہے جو ہمیں ایمان کی طاقت دے۔ ہمیں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ دے، ہمیں ملک کی حفاظت کی طاقت دے۔ ہمیں اس نعمت اور تحفے کی قدر کرنے کی توفیق دے۔ آمین

مزیدخبریں