23 مارچ 1940 سے 23 مارچ 2021!!!!

Mar 23, 2021

محمد اکرم چوہدری

آج یوم پاکستان ہے، تیئس مارچ انیس سو چالیس کو ہمارے بزرگوں نے علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا اور سات برس کے قلیل عرصے میں آزاد و خود مختار وطن کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ آج اس عہد کی تجدید کا دن ہے، آج بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کرنے کا دن ہے، آج علیحدہ وطن کے فلسفے کو یاد کرنے کا دن ہے، آج ان مصائب و مشکلات کو یاد کرنے کا دن ہے جو ہمارے بزرگوں نے آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے دیں۔ آج وہ تاریخی دن ہے جب ہماری آزادی کے لیے، علیحدہ وطن کے لیے، خود مختاری اور آزاد فضاؤں کے حصول کی باقاعدہ تحریک کا آغاز ہوا، حقیقی معنوں میں اور عملی طور پر الگ وطن کے قیام کی بنیاد رکھی گئی۔ میں اس وقت موجود تو نہیں تھا لیکن میں نے اپنے بزرگوں سے تحریک پاکستان کے حوالے سے بہت کچھ سنا ہے، بہت کچھ پڑھا ہے لیکن آج 23 مارچ کو میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ انیس سو چالیس کو کیا مناظر ہوں گے۔ اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کا ایک ہی مقصد تھا، ایک ہی لگن تھی، ایک ہی جوش و جذبہ تھا، ایک ہی منزل تھی، ایک ہی قائد تھا، ان کا سونا جاگنا، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف پاکستان کا قیام تھا۔ نہ کوئی ذاتی مفاد تھا نہ کاروبار کی دلچسپی تھی، نہ جاگیر کا لالچ تھا نہ باغات کا حرص تھا، نہ عہدے کی جستجو تھی۔ سب کے سب ایک نعرے پر متفق تھے اور وہ نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔
دنیا نے دیکھا کہ سچی لگن رکھنے والوں نے، قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا جذبہ رکھنے والوں نے آزادی حاصل کرنے کی قیمت بھی چکائی اور آنے والی نسلوں کے لیے الگ وطن کے حصول میں بھی کامیاب رہے۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ کیا دن ہوں گے جب نوعمر بچے گلیوں میں کھیلتے ہوئے نعرہ لگاتے ہوںگے لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان، جب گھر کی خواتین ہر وقت یہ سوچتی ہوں گی کہ والد، بھائی یا خاوند گھر سے باہر ہیں جانے واپس آئیں گے یا نہیں لیکن وہ الگ وطن، آزاد وطن حاصل کرنے کے جذبے سے سر شار تھیں۔ وہ وقت جب ہر کسی نے اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالا، اپنا کام کیا، قائد پر یقین رکھا اور پھر الگ ملک حاصل کیا۔ وہ کیا قائد تھے، کیا شخصیت تھے، کیا عظیم انسان تھے جنہوں نے ایک غلام، دبی ہوئی اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم قوم کو یکجا کر دیا۔ بابائے قوم نے مقصد سے محبت اور لگن کے جذبے کو بیدار کیا، متحرک و زندہ رکھا، ان کا ہر لفظ سونے میں تولنے کے قابل ہے۔ انہوں نے ایک دبی ہوئی قوم کو خطے میں ایک آزاد و خود مختار قوم میں بدل دیا۔ اس وقت سب ایک ملک حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے تھے آج سب اپنا اپنا گھر بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس وقت ایک قائد تھا آج ہر گلی میں ایک قائد تھا، اس وقت قائد کا مقصد نسلوں کی آزادی و بھلائی تھی آج قیادت کا مقصد کارخانے، محلات، گاڑیاں اور بیرون ملک اپنے بچوں کا محفوظ مستقبل ہے۔ بابائے قوم نے مقصد سے لگن کا سبق دیا ہم نے وہ سبق بھلا دیا، بابائے قوم نے آزادی کی قدر کا احساس دلایا ہم نے اسے فراموش کر دیا، بابائے قوم نے مل جل کر رہنے کا سبق دیا ہم نے وہ سبق بھی بھلا دیا۔ 
دو ہزار اکیس کا 23 مارچ بھولے ہوئے سبق یاد دلانے کا دن ہے۔ ہر 23 مارچ یاد دلاتا ہے کہ ہم منزل سے ہٹ چکے ہیں، بھٹک چکے ہیں، وعدے بھلا چکے ہیں، آج ہمیں ماضی سے زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے، ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت ہے، ہمیں ملک کی بہتری کے لیے اجتماعی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے، ملکی ترقی کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے، انصاف کی ضرورت ہے، آئین و قانون کی بالادستی کی ضرورت ہے۔ 23 مارچ انیس سو چالیس کو مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے، مختلف عقیدے سے جڑے، مختلف حیثیتوں والے، مختلف رنگ و نسل، مختلف برداری کے لوگوں کو ایک متحد قوم میں بدل دیا تھا۔ آج ہم ایک ملک کے شہری ہونے کے باوجود علاقوں میں تقسیم ہیں، ہمیں اپنی برادری اپنے شہر سے پیاری ہے، ہمیں اپنی زبان قومی زبان سے ذیادہ عزیز ہے، ہمیں ذاتی کاروبار ریاست کے اداروں سے زیادہ عزیز ہیں۔ آج ہمیں انیس سو چالیس کے جوش و جذبے، اسی جوش و خروش، اسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس وقت صرف ہندو ہمارا دشمن تھا آج اسلام کے سب دشمن پاکستان کے خلاف متحد ہیں۔ ہم دشمنوں کا مقابلہ اتحاد، انصاف اور پاکستانیت کی سوچ اپنانے سے ہی کر سکتے ہیں۔ ہمیں اندرونی طور پر تحمل مزاجی اور برداشت جب کہ دشمنوں کے معاملے میں سفاک ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم نے گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیے ستر ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس امن کو قائم رکھنے کے لیے، اس ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہم نے بیرونی دشمنوں کے ساتھ اندرونی دشمنوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کا مقابلہ صرف اور صرف اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ جتنا ہم تقسیم ہوں گے ترقی کا سفر اتنا ہی مشکل ہو گا، جتنا ہم باہمی اختلافات کا شکار ہوں گے مسائل حل کرنے میں اتنی زیادہ رکاوٹیں آئیں گی۔ ہم اداروں کی تباہی پر بات کرتے ہیں لیکن اس کی وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کرتے کیا ادارے کسی نے باہر سے آ کر تباہ کیے ہیں، یہ تباہی ہمارے اپنے اعمال کا کیا دھرا ہے۔ ہم نے میرٹ کا قتل عام کیا، نالائق افراد کو اہم عہدوں پر لگایا آج ہم ان نالائق افراد کے غلط فیصلوں کا نقصان بھگت رہے ہیں۔
ہمیں جان لینا چاہیے کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ قربانیاں آزادی حاصل کرنے کے لیے دی گئی ہیں۔ آزادی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ آزادی کے لیے ہزاروں لاکھوں انسانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، دنیا کے مختلف حصوں میں نسلیں آزادی کے لیے لڑتی رہی ہیں۔ چونکہ ہمیں یہ ملک بیٹھے بٹھائے مل گیا ہے، ہم نے غلامی نہیں دیکھی، ہم نے قید نہیں دیکھی، ہم نے مصائب و مشکلات کا سامنا نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ ہم ملک کی قدر اس انداز میں نہیں کرتے جس کا یہ حقدار ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ہمیں کیا دیا تھا اور ہم آنے والی نسلوں کو کیا دے کر جا رہے ہیں۔

مزیدخبریں