یومِ قراردادِ پاکستان کے ہم سے تقاضے 

یوم پاکستان، جسے یوم قرارداد بھی کہا جاتا ہے، تاریخ کا ایک خاص موڑ تھا، جب1940میں ہماری دور اندیش قیادت نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمان ہندو اکثریتی ریاست کے تحت نہیں رہ سکتے۔ لسانی، تہذیبی اور طبقاتی رکاوٹوں کو ختم کیا جاسکتا تھا لیکن متعصبانہ سوچ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔یوم پاکستان پرقوم کو ان ذہنوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے جو 70 سال بعد کے منظر نامے کا اندازہ کررہے تھے۔ انہوں نے اپنے مناسب فیصلے کی بنیاد پر اس حد تک جدوجہد کی کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنی زندگیاں تک حصولِ مقاصد کے لیے دائو پر لگا دیں۔ اس تصور کے خالق علامہ محمد اقبال تھے جبکہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں اس خواب کو عملی شکل دی گئی ۔ پاکستان کے قیام کی صورت نریندر مودی جیسوں کی شدت پسندی سے کتنی نسلیں ظلم و بربریت سے بچ گئیں۔
پچھلے سالوں میں پاکستان نے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کی شکل میںسنگین حالات کا سامنا کیا ۔ قوم پچھلی پیچیدگیوں سے نمٹتی ، نئی مشکلات اُبھرآتیں لیکن ہم نے ہر امتحان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہم نے آمریت اور جمہوریت کے مابین جدوجہد کی ، ہم نے داخلی و بیرونی دہشت گردی اور شورشوں کا مقابلہ کیا ، ہم دشمن پڑوسیوں سے نبرد آزما رہے، دیوالیہ پن سے بچتے ہوئے ہم اپنی معیشت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوتے رہے، ہم 1971 سے بہتری کی راہ پر گامزن ہوئے اورآگے بڑھتے چلے گئے اور واحد مسلم ایٹمی قوت بنے۔یہی وہ وقت ہے کہ جب ہم اپنی پریشانیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے نعمتوں کوبھی شمار کریں۔ موجودہ حکومت نے ریاست کے امور کو صحیح سمت میں ڈالنے کے لئے بہت کوششیں کی ہیں، لیکن تاحال بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ 
پچھلے سال کورونا وائرس کی شکل میں ملک کو ایک نیا چیلنج درپیش تھا، جس کی تیسری اور خطرناک لہر اب تک جاری ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عوام اور حکومت کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے مل کر کام کریں۔ مسلح افواج اور سویلین حکومت اس عالمی بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس موجودہ لہر سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی کے عزم کو فروغ دینا چاہئے۔کوویڈ۔19 کے پیشِ نظر پاکستانی23 مارچ کو روایتی انداز میں نہیں منا پائیں گے لیکن ہمیں اس دن کو یاد رکھنا چاہئے اور لاہور کی تاریخی عظیم قرارداد کے مقاصد اپنی نوجوان نسل کو باور کروانے چاہئیں ۔ خاص طور پر یہ قرارداد جس میں یہ لکھا گیا کہ ’’کوئی بھی آئینی لائحہ عمل مسلمانوں کے لئے قابل عمل یا قابل قبول نہیں ہوگا جب تک جغرافیائی جداگانہ اکائیوں کو ان خطوط پر متعین نہیں کیا جاتا جو علاقائی اصلاحات کے ساتھ تشکیل دیئے جائیں۔ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی، جن علاقوں میں مسلمان تعداد کے لحاظ سے اکثریت میںہیں، ان ریاستوں کا گروپ بنایا جائے جو انتظامی لحاظ سے خودمختار ہوں‘‘۔

ای پیپر دی نیشن