قراردادِ پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں 

یوم پاکستان، مملکت خداداد کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے،23 مارچ 1940 ء کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے  3روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر قرار داد لاہور  منظور کی گئی تھی اس روز مینار پاکستان کے مقام پر قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی، جس کی بنیاد پر آل انڈیا مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جداگانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور 7برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔یوں 74 برس قبل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے نیا ملک دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آیا۔ اس دن کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ 23 مارچ 1956 ء کو پاکستان کا پہلا آئین بنایاگیا جس میں مملکتِ پاکستان کو دنیا کا پہلا’’اسلامی جمہوری‘‘ ملک قراردیا گیا۔اجلاس سے چار روز قبل لاہور میں علامہ عنایت اللہ خان المشرقی ؒکی خاکسار تحریک نے پابندی توڑتے ہوئے ایک بیلچہ بردار عسکری پریڈ کرائی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ 35 کے قریب خاکسار شہیدہوئے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی برسراقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں تاہم انگریز حکمرانوں نے جب یہ دیکھا کہ خاکسار فرنگیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں توگویا اس سانحہ کے چار دن بعد قرارداد پاکستان کی منظوری کی راہ ہموار کی ، مسلم  لیگ  کے 22 مارچ1940ء کو ہونے والے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پہلی بار کہا کہ ’’ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورانہ نہیں ہے بلکہ عالمی  نوعیت ہے یعنی یہ دو قوموں کانظریاتی مسئلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں رہن سہن اور دیگر حوالوں سے اس قدر واضح فرق ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پورہوگا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ دونوں قومیتوں کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔یوں مسلم لیگ کے جاری اجلاس میں قائد اعظمؒ کے نظریات کی روشنی میں 23 مارچ کو وزیر اعلیٰ بنگال مولوی فضل الحق المعروف شیرِ بنگال نے قراردادِ لاہور پیش کی جس میں واضح طور پر یہ مطالبہ پیش کیا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان قابلِ عمل ہوگااورنہ ہی مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ کردی جائے۔قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اورحاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔پیش کردہ قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد (خیبرپختونخواہ)سے سرداراورنگ زیب، سندھ سے سرعبداللہ ہارون اوربلوچستان سے قاضی عیسی ٰنے کی۔قراردادِ پاکستان24مارچ کو ہونے والے اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔قراردادِ پاکستان کے مصنف اس وقت کے وزیرِ اعلی پنجاب سرسکندر حیات خان تھے جو کہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔ مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل آپ یونیسٹ پارٹی کے سربراہ تھے۔23مارچ1940 ء کی قرارداد کے متن اور اس کی تائید و حمایت میں کی جانے والی تقاریرسے مسلم لیگ کے رہنماؤں کے نظریات، تصورات اور خدشات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ 1940 ء تک اکثریتی مسلم صوبے ایک آزاد ریاست کے بارے میں واضح نہیں تھے اور نہ ہی یہ واضح تھا کہ بھارت کی آزادی اور تقسیم کس نوعیت کی ہو گی۔فرنگی سامراج کا ذہن بھی پوری طرح واضح نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرارداد میں ایک سے زیادہ آزاد مسلم ریاستوں کی گنجائش رکھی گئی۔ 1940 ء کی قرارداد پریس میں شائع ہوئی تو اس پر پورے بھارت ردعمل سامنے آیا۔ بھارت کے ہندو لیڈروں نے قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کا نام دیا جسے مسلمانوں نے قبول کر لیا۔تاریخ اور تحریک جامد اور ساکت نہیں ہوتی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ بدلتے ہوئے حالات سے متاثر بھی ہوتی ہے۔ 1940 ء کے بعد کرپس مشن، شملہ کانفرنس، ہندوستان چھوڑ دو تحریک اور کیبنٹ مشن پلان نے کانگریس اور مسلم لیگ کی پالیسیوں کو متاثر کیا۔ برطانوی ذہن کھل کر سامنے آیا۔ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ اگر وہ دو آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو گئے تو بھارت کی سوچ و فکر کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے، لہذا 6 سال کے سیاسی سفر کے بعد مسلمانوں نے ایک متحدہ ملک’’ پاکستان‘‘ ہی کو اپنی بقاء اور آزادی کے لیے لازمی جانا۔ 1946 ء میں ایک نئی اور حتمی قرارداد کی ضرورت کے تحت 7 اپریل 1946 ء کو دہلی میں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین قانون ساز اسمبلی کا تاریخی کنونشن ہوا جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح ؒنے کی۔ اس موقع پر قائداعظم ؒنے فرمایا’’برصغیر کے مسلمان ایک ایسے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر شعبہ زندگی خصوصا تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی شعبوں کا احاطہ کرتا ہے اور جو محض رسومات، روحانیت اور رواجوں پر مبنی نہیں بلکہ ہندو دھرم و فلسفہ کے قطعی متضاد ہے۔ ہندوؤں کے ذات پات پر مبنی فلسفہ نے بھارت کے 6 کروڑ انسانوں کو اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہندو ذات پات کا نظام قومیت، مساوات، جمہوریت اور اسلام کے سنہری اصولوں کے منافی ہے۔ مسلمان اکثریتی صوبوں میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکیں گے کیونکہ مرکز میں ہندووں کی بالادستی ہو گی۔ اس لیے مسلمانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان زونز پر مشتمل پاکستان کی آزاد اور خودمختار ریاست بنائی جائے۔ ہندوستان اور پاکستان کی اقلیتوں کے حقوق کا 1940 ء کی قرارداد لاہور کی روشنی میں تحفظ کیا جائے۔قرارداد پاکستان میں کئے گئے مطالبے کی روشنی میں پاکستان وجود میں آیا لیکن اس قراداد میں جس دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی گئی ۔پاکستان بننے کے بعد آنے والے حکمرانوں نے ان مقاصد کو فراموش کر دیا ۔سیاست دانوں کی ذاتی مفادات کی جنگ نے پاکستانی کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچایا ۔آزادی  کے 18برس بعد ہمارا ازلی دشمن پاکستان کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ہمارا ایک بازو ’’مشرقی پاکستان‘‘ ہم سے جدا کر دیا گیا ۔اس کے باوجودہماری غیرت و حمیت نہ جاگی ،ہمارے صفوں میں انتشار و نفاق پیدا کرنے والی قوتوں نے ہمارے دو قومی نظرئیے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔اب بھی ہم ہر سال 23مارچ کا دن پورے  جوش اور جذبے سے مناتے ہیں ۔عساکر پاکستان کی پریڈ ہوتی ہے ،عسکری قوت کا شاندار مظاہرہ ہوتا ہے ،جلسے ہوتے ہیں بڑی بڑی تقریبات ہوتی ہیں۔اعلیٰ خدمات پر مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کوصدارتی و قومی ایوارڈ زسے نوازا جاتا ہے ۔لیکن عملی طور پر ہمارا کردار و عمل قرارداد پاکستان میں وضع کردہ اصول و ضوابط کے برعکس ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دوقومی نظرئیے کے مطابق اپنی سوچ و فکر کو پروان چڑھائیں ، نوجوان نسل کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہی پر دھیان دیں ۔اسی طرح ہم قائد اعظم کے نظریات و افکار کے مطابق پاکستان کو قوموں کی برادری میں ایک باوقار ملک بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن