البیرونی 1020کے لگ بھگ ہندوستان آئے ۔اپنی کتاب "کتاب الہند"میں ہندوؤں کے مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "مسلمانوں کو یہ ملیچھ(ناپاک) کہتے ہیں،اسی وجہ سے یہ مسلمانوں سے ملنا جلنا ، شادی بیا ہ کرنا ، قریب جانا ، مل کر بیٹھنا اور ان کے ساتھ کھانا جائز نہیں سمجھتے ۔ صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دلوں میں جو نفرت کا لاوا پاک رہا ہے یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا کہ ہندو مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتے ، ذلیل و خوار کرتے ، نفرت ، قتل و غارت سے نیست و نابود کرنا زندگی کا جزسمجھتے تھے "
ہندوئوں کے اسی نفرت پر مبنی رویے نے مسلمانوںکے دل میںالگ وطن کی شمع اجاگر کی۔سرسید احمد خان کی علی گڑھ کی علمی تحریک کو مفکرین پاکستان کا نقطہ آغاز قرار دیتے ہیں کیونکہ تحریک علی گڑھ سے برصغیر کے مسلمانوں میں جو آزادی کی لہر پیدا کی وہ 1906میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شکل میں نظر آتی ہے جو 1916میں لکھنو پیکٹ ،1929میں حضرت قائداعظم کے چودہ نکات بعد ازاں1930میں خطبہ الہ آباد جس میں علامہ محمد اقبال نے مسلمانان برصغیر کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا ۔ اس منزل کے حصول کے لیے حضرت علامہ کے ذہن میں انمول شخصیت جو ابھری اس کے بارے میں آپ نے ایک معیار مقرر فرمایا جو یہ تھا ۔
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
حضرت علامہ اقبال کو وہ انمول ہیرا میسر آگیا جس کے بارے میں آپ نے مخالفین سے فرمایا کہ جناح جس نشاط ثانیہ کی جنگ لڑرہا ہے اس جنگ میں اقبال سپاہی اور جناح سالار ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ جو کہ برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی ۔1936-37کے عام انتخابات میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑااور گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک صوبے میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔اس ناکامی کی وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنان میں نا امیدی اور بے بسی کا عالم تھا۔دوسری جانب انہیں اس بات کا علم تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بنا پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے ۔یہی ابتداء تھی ۔مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس بیداری کی ۔آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ تین روزہ اجلاس 22مارچ کو لاہور میں منعقدا ہوا ۔اس سے چند روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی ،جس کو روکنے کے لیے پولیس نے گولیاں چلائیں ۔جس سے کافی افراد جان بحق ہوئے ، اس واقعے کی وجہ سے لاہور میں شدید کشیدگی کا عالم تھا ۔اکثر کارکنان نے قائداعظم سے جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا مگر قائداعظم پرعزم تھے ۔انھوں نے اجلاس میں پہلی مرتبہ کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے ۔یہ مسئلہ دو قوموں کا ہے ۔ہندو اور مسلم میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھرپور ہے ۔انھوں نے کہا کہ اس صورت حال میں ایک ہی راستہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔اگلے روز بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق نے تاریخی قرار داد پیش کی ۔اس قرار داد میں کہا گیا کہ ہندوستان کے وہ علاقے جو مسلم اکثریتی اور جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہیں ان کی حد بندی ایسے کی جائے کہ وہ خود مختار آزاد مسلم ریاستوں کی شکل اختیار کر لیں۔جن علاقوں میں مسلم اکثریت میں ہیں وہاں انہیں آئین کے تحت مذہبی، سیاسی، سماجی ، اقتصادی ، آزادی اور حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے کیونکہ ہندوستان کا موجودہ آئین مسلمانوں کے حقوق پورے نہیں کرتا اور مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق تعمیر و تربیت دینے کے قابل بنایا جائے ۔اس جلسے میں تقریبا سوا لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی جن میں بیشتر خواتین تھیں۔اس سے قبل ہندوستان میں مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع کبھی نہ ہوا تھا ۔اس قرار داد کے مصنف وزیر اعلیٰ پنجاب سرسکندر حیات خان تھے جو کہ مسلم لیگ پنجاب کے صدر بھی تھے۔ قرار داد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیل الزماں ، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ، سرحد سے سردار اورنگ زیب ، سندھ سے سر عبداللہ ہارون ، بلوچستان سے قاضی عیسیٰ اور بیگم مولانا محمد علی جوہر نے سب سے پہلے اس قرار داد کی حمایت کے ساتھ قرار داد پاکستان کا لفظ استعمال کیا تھا ۔آل انڈیا مسلم لیگ نے 23مارچ کے دن سے ہی یوم پاکستان منانا شروع کر دیا ۔
یکجہتی تجدید عہد۔۔۔23 مارچ
Mar 23, 2021