آج مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کا یومِ پیدائش ہے وہ بلاشبہ عزم و استقلال کا پیکر اور غیرجمہوری قوتوں کے خلاف مزاحمت کی مضبوط علامت تھیں۔ انہوں نے جنرل ضیا کے بدترین مظالم کا جس جرأت و دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا وہ ایک شاندار مثال ہے مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں انہوں نے فوجی آمر کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف اپنے کارکنوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہمارے سرکٹ سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے اور انہوں نے جنرل ضیا کے ظلم و تشدد کا آہنی عزم کے ساتھ مقابلہ کیا۔ بیگم نصرت بھٹو دردمند عظیم خاتون تھیں وہ نہایت شفیق، ہمدرد، غمگسار،بلند ہمت تھیں وہ کارکنوں کو پارٹی کا اثاثہ سمجھتی تھیں اور پارٹی کارکن بھی ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔
بیگم نصرت بھٹو کی دلیرانہ جدوجہد جنرل ایوب کے دور سے شروع ہو کر جنرل ضیا کے انتہائی سفاکانہ اور جابرانہ دور تک محیط ہے۔ ایوب نے جب جناب ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی حکومت کیخلاف سرگرمیوں پرجیل میں ڈالا تو بیگم نصرت بھٹو اس کے خلاف میدان عمل میں آئیں اور انکی رہائی کیلئے بھرپور مہم چلائی ۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو خاتونِ اول بیگم نصرت بھٹو نے عوامی بہود کے بہت سے کام کیے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شعبہ خواتین کو منظم کرکے خواتین میں سیاسی شعور پیدا کیا۔
سیاست میں خواتین کے کردار کے بارے میں بیگم صاحبہ کا یہ واضح نکتہ نظر تھا کہ عورتوں نے پیپلزپارٹی کے پرچم تلے پہلی بار آمریت کے خلاف جدوجہد کی اس جدوجہد میں انہوں نے لاٹھیاں کھائیں، پاکستانی معاشرہ میں عورت سب سے مظلوم رہی ہے وہ پیپلز پارٹی کی سوچ کے مطابق پاکستان کی نصف آبادی کے کردار کو بڑھانا چاہتی تھیں اور ان کی زندگی انسانی حقوق کی پاسداری ،سیاسی شعور کو اجاگر کرنے اور جمہوریت کا تحفظ کرتے ہوئے گزری۔قائدعوام کی قید کے دوران بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی قائمقام چیئرمین بنا دیا گیا۔ وہ بطور چیئرپرسن مارشل لاء کیخلاف سینہ سُپر ہو گئیں۔ اور بے مثال بہادری کے ساتھ عوام کے جمہوری حقوق کی آواز بلند کی۔ انہیں اس جمہوری و عوامی جدوجہد سے روکنے کیلئے گھرمیں نظر بند کر دیا گیا۔ مگر اس بہادر خاتون نے مضبوط اعصاب کے ساتھ تمام مشکلات و مصائب برداشت کیے۔ پارٹی کارکنوں نے بھی انکی پیروی میں اس جمہوری جددجہد میں بہادری کے نئے باب رقم کیے ۔اور کردار و عمل سے پاکستان پیپلزپارٹی کا پرچم بلند رکھا۔ انہیں یہ طاقت بیگم صاحبہ کی ولولہ انگیز اور بے خوف قیادت سے ملی۔پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے سیاسی و جمہوری جدوجہد تیز کر دی۔ عوام انکے ساتھ تھے انجام کار جنرل ضیا نے اپنی بزدلی کو تسلیم کرتے ہوئے 16۔ اکتوبر 1979کو انتخابات منسوخ کر دیئے۔
بیگم صاحبہ اور بے نظیر بھٹو کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے 5جنوری 1979ء کو مساوات ویکلی لندن کو اپنے خصوصی انٹرویو میں بھٹو صاحب کے جھوٹے مقدمہ قتل کے بارے میں کہا تھا:
’’لاہور ہائیکورٹ کی کارروائی سے برطانیہ کی اس بدترین عدالت سٹارجیمز کی یادتازہ ہو جاتی ہے جہاں انصاف کے تقاضوں کو یکسر پسِ پشت ڈال کر بے گناہوں کو ٹاور آف لندن کے جلاد کے سپرد کر دیا جاتا۔ اس عدالت میں قانون کا جاہ و جلال نہیں۔ ایک قصاب کی دوکان کا منظر نظر آتا ہے۔
وزیراعظم بھٹو کیخلاف یہ قتل کا مقدمہ نہیں بلکہ مقدمے کا قتل ہے۔ ہم انصاف چاہتے ہیں، عوام انصاف کے خواہاں ہیں۔ ہم ایسے بے گناہ کی بریت چاہتے ہیں جو اتفاق سے پاکستان کے عوام کا منتخب نمائندہ ہے۔ وفاق اپنے راہنما کیلئے انصاف کا طالب ہے۔ وفاق بریت چاہتا ہے عوام اسکے کم تر کوئی چیز قبول نہیں کرینگے۔ مکاری اور دغابازی سے ہونیوالے فیصلہ کو عوام کی منتخب پارلیمنٹ میں تحقیقات کیلئے پیش کیا جائیگا۔ اگر مارشل لا نے انصاف کی آبروریزی کی تو پارلیمنٹ اس سازش کی تحقیقات کریگی جو عوام کے منتخب نمائندہ کو عدالتی کارروائی کی آڑ میں قتل کیلئے کی گئی۔
جناب آصف زرداری کے دور صدارت اور حکومت کا یہ خوش آئند اقدام ہے کہ بیگم نصرت بھٹو کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’’نشانِ پاکستان‘‘ دیا گیا۔ یہ اعزاز بیگم صاحبہ کی جمہوریت کیلئے عظیم الشان خدمات، سیاسی و سماجی اور انسانی حقوق کی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا گیا جس کی وہ بلاشرکت غیرے مستحق تھیں۔