بار کی درخواست‘ صدارتی ریفرنس ایک ساتھ سننے کا فیصلہ‘5رکنی بنچ تشکیل

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن اور آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 21مارچ کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے۔ عدالت کے تحریری حکمنامے میں قرار دیا گیا ہے کہ سپیکر کی طرف سے وقت پر اسمبلی اجلاس نہ بلانے جیسے معاملات میں آئین کے تحت پارلیمنٹ خود داد رسی کرسکتی ہے، سپریم کورٹ بار  اور سیاسی جماعتوں کے وکلا نے سپیکر کی طرف سے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب کرنے اور اس ضمن میں 14 دن کے اندر اسمبلی اجلاس بلانے کی آئینی پابندی کو نظر انداز کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن فی الوقت اس نکتے کو نہیں اٹھائیں گے کیونکہ یہ معاملہ آئینی تشریح کا متقاضی ہے اور اس ضمن میں عدالت کے سامنے صدارتی ریفرنس زیر سماعت ہے۔ پانچ صفحات پر مشتمل آرڈر میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار  کی طرف سے داد رسی کے لیے رکھی گئیں پانچ گزارشات کا جائزہ لیا گیا اور چار گزارشات کی حد تک اٹارنی جنرل نے دو ٹوک بیان دیا کہ وفاقی حکومت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے بلائے گئے اسمبلی اجلاس میں کسی رکن قومی اسمبلی بشمول تحریک انصاف کے ارکان کو شرکت اور ووٹ ڈالنے سے نہ تو روکے گی، نہ رکاوٹ ڈالے گی اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی مداخلت کرے گی لیکن پانچویں گزارش صدارتی ریفرنس سے جڑا ہے اس لیے دونوں معاملات کو ایک ساتھ سنا جائے گا۔ عدالت نے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ بار کو نوٹس جاری کردیا ہے جبکہ بار کی پٹیشن میں فریق سیاسی جماعتوں کو بھی صدارتی ریفرنس میں نوٹس جاری کرکے انہیں 24 مارچ تک جامع جواب جمع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ حکمران جماعت کی اتحادی سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ وہ وفاقی حکومت کا حصہ ہیں لیکن اگر حکومتی اتحاد میں شامل کوئی سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ اسے سنا جائے تو وکیل کے ذریعے مذکورہ سیاسی جماعت کو سنا جائے گا۔ اٹارنی جنرل پاکستان کی تجویز قابل عمل ہے اس لیے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں میں میٹنگ کا اہتمام کرے۔ تحریری آرڈر میں کہا گیا ہے کہ انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس نے رپورٹ جمع کرائی اور تحریک عدم اعتماد کے دوران سخت حفاظتی اقدامات کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا۔ آئی جی اسلام آباد نے یقین دہانی کرائی کہ سندھ ہاؤس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سندھ ہاؤس پر حملے سے متعلق درج مقدمات پر تحفظات کا اظہار کیا جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے یقین دہانی کرائی کہ اگر صوبائی حکومت ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے کیس میں شریک ہونا چاہتی ہے تو اس پر غور کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح  کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کیلئے 5 رکنی لارجر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ کل 24 مارچ کو کیس کی سماعت کرے گا۔ بنچ  میں جسٹس اعجاز الاحسن‘ مظہر عالم میاں خیل‘ جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔ دوسری جانب اٹارنی جنرل نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 63ا ے میں کچھ پابندیاں ہیں۔ سوال ہے ووٹ کاسٹ  ہوا تو کیا اسے تسلیم یا مسترد کرنا ہے۔ یہ سوال ہم نے عدالت کے سامنے رکھا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کا آئینی رول ہے۔ سپیکر کو اس حوالے سے کوئی غلط فہمی نہیں۔ ایوان میں کارروائی چیلنج نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی غیر قانونی کام ہو تو عدالت  مداخلت کر سکتی ہے۔ اجلاس نہ بلانے کو مکمل طور پر غیر آئینی نہیں کہا جا سکتا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...