خالد بہزاد ہاشمی
23مارچ 2012ء کی اشاعت خاص کیلئے بھی راقم نے 23 مارچ 1940ء کو منٹوپارک میں قرارداد پاکستان کے جلسہ عام کے سٹیج ، شامیانوں، میزوں، کرسیوں اور دیگر انتظامات کرنے والے سرگرمی لیگی کارکن حافظ منظور احمد کے ادارے ایس علی اینڈ سنز انار کلی بازار سے رجوع کیا تھا۔ منٹوپارک کے جلسہ میں مذکورہ بالا اشیاء کی فراہمی اسی ادارے کے ذمہ تھی۔ حافظ منظور احمد کا تقریباً بارہ سال قبل انتقال ہو گیا تھا اور ان کے صاحبزادے ولی احمد، ان کے بھائی ظہور احمد اور منصور ا حمد کاروباری ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ ولی احمد کے پاس وہ تاریخی اور یادگار کرسی موجود تھی جس پر 23 مارچ 1940ء کے جلسہ عام میں قائد اعظم رونق افروز ہوئے تھے۔
ولی احمد نے نوائے وقت میگزین کو خصوصی ملاقات میں بتایا تھا کہ یہ تاریخی کرسی 1940ء سے ہمارے پاس اسی حالت میں محفوظ ہے اور ہم اس کی دل و جان سے حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے والد مرحوم حافظ منظور احمد کو اس کرسی سے دلی لگائو اور جذباتی وابستگی تھی۔ انہوں نے ہمیں حکم دے رکھا تھا کہ قائداعظم کے بعد اس کرسی پر کوئی اور نہ بیٹھے اور انہوں نے اس کی پاسداری بھی کی۔ ہم نے بھی بہت سے آفرز کے باوجود اس کرسی کو کبھی رینٹ پر نہیں دیا۔ شاہانہ انداز کی یہ کرسی اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔ اس کے بازوئوں پر شیر کا منہ بنا ہوا ہے جو کھلا ہے جبکہ اس کے سامنے کے دونوں پائے بھی شیر کے پنجوں سے مشابہہ ہے۔
وہ بھی کیا منظر ہو گا جب پورا پنڈال لیگی کارکنوں سے کچھا کچھ بھرا ہو گا اور سٹیج پر شیر بنگال مولوی اے کے فضل حق کے ساتھ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اس کرسی پر رونق افروز ہونگے اور مجمع قائد اعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا رہا تھا۔ ولی احمد نے بتایا تھا کہ انہوں نے اس کرسی کو کپڑوں میں لپیٹ کر اسے باندھ کر محفوظ کر رکھا ہے تاکہ اس پر کوئی مٹی، گرد، رگڑ یا ضرب نہ لگے۔ اسی لیے اس کا رنگ روغن، کپڑا، فریم بالکل اسی حالت میں موجود ہے اور اس پر آج بھی ایک نئی اور شاہانہ کرسی کا گمان ہوتا ہے ولی احمد نے شاپ کی بالائی منزل سے یہ تاریخی کرسی جو کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھی منگواکر راقم کو دکھائی تھی جسے تصویر کے ساتھ نوائے وقت میگزین میں شائع کیا تھا۔ ولی احمد نے بتایا تھا کہ چند سال قبل مینار پاکستان پر 23 مارچ کے جلسہ عام کیلئے عمران خان (موجودہ وزیر اعظم) کی درخواست پر یہ کرسی وہاں رکھی گئی تھی اور اس جلسہ سے عمران خان نے خطاب کیا تھا اور اس کرسی کی وہاں جلسہ عام میں رونمائی کی گئی تھی۔
اب نوائے وقت نے دوبارہ انار کلی بازار میں ایس علی اینڈ سنز کا وزٹ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دکان فروخت ہو چکی ہے جبکہ ولی احمد امریکہ شفٹ ہو چکے ہیں جبکہ ان کے بھائی نے اب یہ شاپ پونچھ روڈ تھانہ لٹن روڈ کے سامنے بنا رکھی ہے۔ چنانچہ برخوردار نبید ہاشمی کے ہمراہ وہاں پہنچے تو شاپ بند تھی، ملحقہ ملازمین کے اہلخانہ سے ان کا نمبر لیکر بات ہوئی۔ ظہور احمد نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل ان کے خاندان کا شمار لاہور کی چند مسلم متمول فیملیز میں ہوتا تھا ان کے اجداد نے 1885ء میں یہ ادارہ قائم کیا اور قرارداد پاکستان کے پنڈال کیلئے سامان کی فراہمی کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا۔ والد صاحب حافظ منظور احمد ا ور بعدازاں ہم بھائیوں نے یہ کرسی بہت سنبھال کر رکھی۔ والد صاحب نے چالیس سال قبل پی ٹی وی کو اس کرسی کے حوالے سے انٹرویو بھی دیا تھاآر کائیو میں محفوظ بھی ہو گا۔ ظہور احمد نے بتایا کہ انہوں نے یہ کرسی چند سال قبل آزادی میوزیم واہگہ کے روح رواں کرنل (ر) مظہر کی درخواست پر میوزیم کیلئے ڈونیٹ کر دی تھی جہاں یہ اب محفوظ ہے۔
نوائے و قت نے کرنل (ر) مظہر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایوان علم و فن کے نام سے ادارہ چلا رہے ہیں جس کے تحت کیلی گرافی کیساتھ قرآن پاک کھلوایا جا رہا ہے جبکہ کینٹ کے آٹھ سکولوں میں بھی کیلی گرافی کرائی جا رہی ہے۔ اکنامکس اسلامی نظام اور مدینہ اکنامکس کے نام سے بھی کتب شائع ہو رہی ہیں۔ وہ سیرت، قرآن پاک اسلامک ہسٹری اور پاکستانی تاریخ پر بھی کام کر رہے ہیں۔ کرنل (ر) مظہر نے بتایا کہ یہ تاریخی کرسی میری درخواست پر عطیہ کی گئی ہے، میوزیم میں دیگر مشاہیر کی تصاویر اور ہسٹری انگریزی اور اردو میں تحریر ہے انہوں نے نوائے وقت کو 23 مارچ کو آزادی میوزیم کا وزٹ کرنے کی دعوت بھی دی۔
’’آزادی میوزیم‘‘ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے اولین قافلے کے پرائو کی جگہ بنایا گیا ہے، لانس نائیک خالد
واہگہ بارڈر پر ’’آزادی میوزیم نوائے رہبران‘‘ 2017ء میں قائم کیا گیا تھا جو جنگ آزادی اور تحریک پاکستان کے نامور مشاہیر اور ہیروز کی تصاویر اور تعارف سے مزین ہے۔ آزادی میوزیم کا وسیع و عریض ہال اس تاریخی مقام پر بنایا گیا ہے جہاں قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے آنے والے لٹے پھٹے مہاجرین کے اولین قافلے نے قیام کیا تھا۔ اس وقت لانس نائیک خالد آزادی میوزیم کے نگران ہیں۔ انہوں نے نوائے وقت کو بتایا کہ اس ہال میں وہ تاریخی کرسی بھی موجود ہے جس پر 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں قائد اعظم تشریف فرما ہوئے تھے جبکہ ہال میں 39 تصاویر بھی آویزاں کی گئی ہیں اس کے ساتھ ہی میثاق مدینہ، باب الاسلام سندھ میں محمد بن قاسم کی آمد، اشاعت اسلام ، 1857ء میں انگریزوں سے مسلمانوں اور ہندوئوں کی جنگ، تحریک پاکستان اور پاکستان کی ہسٹری وزٹرز کو ماضی و حال کے تمام ادوار سے آگاہ کرتی ہے۔
لانس نائیک خالد نے بتایا کہ ہال میں فاتح سومنات محمود غزنوی، شیر میسور ٹیپو سلطان شہید، حیدر سلطان، علامہ محمد اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر ہیروز کی تصاویر کیساتھ ان کی الگ الگ ہسٹری لکھی گئی ہے۔ آزادی میوزیم شام چار سے چھ بجے تک کھلتا ہے اور اس کے لیے رینجرز ہیڈ کوارٹرز سے باقاعدہ اجازت لینا ہوتی ہے جس کے بعد اس کا نام یہاں درج ہوتا ہے اور اسے خصوصی اجازت کے ساتھ ہم آزادی میوزیم کا وزٹ کراتے اور بریفنگ دیتے ہیں یہ میوزیم عام لوگوں کیلئے نہیں کھلا
لانس نائیک خالد بتارہے تھے کہ عام طورپر دن میں ایک ہی وزٹریہاں آتاہے جبکہ واہگہ بارڈر پر روزانہ ہونے والی مشہورزمانہ پریڈ کو دیکھنے کے لیے پانچ سے چھے ہزارافراد ڈیلی آتے ہیں جن میں غیر ملکیوں اور اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت ہوتی ہے لاہور شہر سے دس پندرہ فیصد نمائندگی ہوتی ہے۔‘‘
واہگہ بارڈر پر آزادی میوزیم کا قیام بلاشبہ ایک مستحسن اور قابل ستائش عمل ہے زندہ اقوام اپنے ہیروز اور مشاہیرکی یادگاروںاور تاریخ کو اسی شان وشوکت اور اعزاز کیساتھ محفوظ کرتی ہیں تاکہ نوجوان نسل کو انکی قربانیوں اور اپنے درخشندہ ماضی سے آگاہ کیاجائے اور ان میں بھی اپنے اسلاف اور مادروطن کے لیے قربانی کا جذبہ پیدا ہو۔اس کرسی اہمیت کے پیش نظرراقم یہ کہنے کی جسارت کرے گااسے یادگار مینارپاکستان میں شیشے کے بڑے بکس میں محفوظ کیاجائے اوراسکی موجودہ تاریخ بھی ساتھ درج ہوکیونکہ اس کرسی اور مینار پاکستان کا دائمی ساتھ ہے اس کے اور مینار پاکستان سے بہتر جگہ کوئی اور نہیں ہوسکتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مینار پاکستان پر دن بھر ہزاروں افراد کا صبح سے شام تک تانتا بندھا رہتاہے اور تمام وزٹرز بھی اس نا در روز گار کرسی کی زیارت اور تاریخ سے مستفید ہونگے جبکہ بتول لانس نائیک خالد واہگہ میوزیم میں دن میں بمشکل ایک آدھا شخص ہی آتاہے اگرفوری طورپر ایسا ممکن نہ ہوتو اسے لاہور میوزیم کی پاکستان گیلری میں بآسانی رکھا جاسکتا ہے جس سے اس گیلری کی اہمیت مزید دو چند ہوگی۔
اس نادر روز گارکرسی کی تصاویر لینا کافی دشوراتھا جسکے لیے ڈائریکٹرجنرل آپریشنز نوائے وقت میڈیا گروپ لیفنٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری تمغہ امتیازکی مدد حاصل کی اور انہوں نے رینجرز ہیڈکواٹرز سے رابطہ کرکے 23 مارچ کی اشاعت خاص کے لیے یہ تصاویر ہمیں فراہم کیں جو رینجرز ہیڈکواٹرز اور کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری کے شکریہ کے ساتھ شائع کی جارہی ہیں۔