میں 1940ء کی تاریخ میں 23 مارچ کو لاہور ’’اقبال پارک‘‘ میں کھڑے ان مسلمانوں کو داد دیتی ہوں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے آئے ہوں گے۔ جن کے مرہون منت آج ہم مسلمان سر زمینِ پاکستان کی کھلی فضاؤں میں سانس لے رہے اور خود کو ’’پاکستانی‘‘ کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریات کی کوکھ سے پھوٹی ہے قائداعظم محمد علی جناح نے واضح الفاظ میں 82 سال پہلے فرمایا تھا کہ ’’اسلام اور ہندو دو الگ قومیں ہی نہیں بلکہ درحقیقت دو مختلف نظام حیات ہیں ہندو اور مسلمان کے بارے میں سوچنا کہ وہ مل کر مشترکہ قومیت قائم کر سکیں گے سراسر غلط ہے۔ ہندو اور مسلمان آپس میں شادی نہیں کرتے، ایک دستر خوان پر کھانا نہیں کھاتے، ان کی تہذیبیں مختلف، ایک دوسرے کی ضد اور اکثر ایک دوسرے کی متصادم ہوتی رہتی ہیں۔‘‘جو نظریہ قوم کی تعمیر کا باعث ہوتا ہے وہی نظریہ اس قوم کی ارتقاء کی ضمانت ہوتا ہے دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں! نظریات ہی قوموں کی شناخت اور پہچان ہوا کرتے ہیں مشرق و مغرب کی پروردہ مختلف نظریات کی چکا چوند کی پیروی کی خواہش آپ کی آنکھیں چندھیا کر آپ کو کچھ بھی دیکھنے کی قابل نہیں رہنے دے گی۔ اب ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر ہم اپنے مذہبی و ملی نظریاتی تشخص پر نہ ڈٹے رہے تو ایک کامیاب قوم ثابت نہیں ہو سکیں گے۔ آج کی ہماری نوجوان نسل کو سینوں میں وہ دل زندہ کرنے کی ضرورت ہے جو آج سے 82 سال پہلے 23 مارچ کی قرارداد کیلئے صحفۂ اول میں تھے۔ میں دیکھتی ہوں کہ آج کا پاکستانی نوجوان تو اپنی قومی زبان ’’اردو‘‘ بولنے پر بھی ہچکچاتا ہے اور اردو لکھنے کے بارے میں تو کوئی بات ہی نہ کریں۔مادری زبان تو بہت دور کی بات ہے جو قوم اپنی قومی زبان پر ہچکچاتی ہے اس قوم کی ترقی کی شاہراہ روشن نہیں ہو پاتی۔ دنیا بھر کی اقوام اپنی قومی زبانوں پر فخر کرتی ہیں اور ان کی ترویج و اشاعت قوم پر لازم ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے عذر اور بہانوں کو گندی نالی میں پھینک کر بہانا ہو گا۔ ہمارے دل تب ہی زندہ ہو سکتے ہیں اگر ہم اپنی ثقافت کو مضبوطی سے تھامیں گے ورنہ یونہی بھٹکتے پھریں گے۔
ہماری نسلیں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آٹھ آٹھ گھنٹے کتابوں کو پڑھ پڑھ کر بھی کھوکھلی ہی رہیں گی۔ ہمیں نسلوں میں ’’چودھری رحمت علی‘‘ جیسا ولولہ پیدا کرنا ہو گا جنہوں نے بحیثیت طالب علم 1933 ء میں مسلمانوں کیلئے ایک سے زیادہ آزاد مملکتوں کے قیام کی تجویز ایک پمفلٹ ’’اب نہیں، تو پھر کبھی نہیں‘‘ میں پیش کی تھی۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد ’’لا الہ الا للہ‘‘ہے۔ اس کی حفاظت درحقیقت پاکستان کا دفاع ہے۔ اگر ہم خدانخواستہ ’’لا الہ الاللہ‘‘ کا دفاع کھو بیٹھے تو پاکستان اپنا جواز کھو بیٹھے گا۔ اسلحہ کی دوڑ، ہتھیاروں کے ڈھیر اور عسکری صلاحیتوں کا حصول صرف جغرافیائی اعتبار سے حفاظت کر سکتا ہے جبکہ قوموں کا وجود ان کے عقائد و نظریات، تہذیب و تمدن اور ثقافت کی مرہون منت ہوتا ہے۔ جغرافیائی میدان میں شکست کے بعد تو قوموں کا وجود بقایا رہ سکتا ہے لیکن تہذیبی جنگ میں شکست قوموں کوصحفۂ ہستی سے مٹا دیا کرتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے ملک کی طرف تیزی سے بڑھتی تہذیبی یلغار، ثقافت کے نام پر فحاشی و عریانیت، بے راہ روی، آوارگی اور بے حیائی کے سیلاب کے سامنے بند باندھنا ہو گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نظریاتی میدان میں شکست یقینی ہو گی۔ جس سے ہمارا پورا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے اور 1940 کی ’’اقبال پارک‘‘ لاہور کی قرارداد اپنی شناخت کھو بیٹھے گی۔ ہمیں زندہ دلوں کو تشکیل دے کر ’’قرارداد لاہور‘‘ کو بچانا ہو گا اور انشاء اللہ اس عزم کی پاسداری کرتے ہوئے ہم قیامت تک دنیا کے نقشے پر ہر سو چمکتے رہیں گے ۔
ہم ہیں ارض پاک کے زروں کی حرمت کے امیں
ہم ہیں حرف لا الہ کے ترجمان بے خطر