اپوزیشن کا عجلت میں اٹھایا قدم

Mar 23, 2022

نصرت جاوید

پارلیمانی جمہوریت میں حکمران اشرافیہ کے مابین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اصل دنگل عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی کے ’’اکھاڑے‘‘ میں برپا ہوتے ہیں۔اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں بہت حیران ہوا جب اپوزیشن جماعتوں نے باہمی اختلافات بھلاکر رواں مہینے کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔
ذاتی طورپر اس تحریک کو میں قبل از وقت قرار دیتا رہا۔خلوص دل سے ویسے بھی اس خیال کا حامل ہوں کہ عمران خان صاحب کو بطور وزیر اعظم اپنے عہدے کی آئینی مدت مکمل کرنے کا موقعہ فراہم کرنا چاہیے ۔وہ اس سے قبل محلاتی نظر آتی کسی ’’سازش‘‘ کے ذریعے گھر بھیج دئے گئے توخود کو ’’سیاسی شہید‘‘ ثابت کرنے میں جت جائیں گے۔اس رائے کے باوجود یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ کسی بھی وزیر اعظم کو پارلیمانی اصول وضوابط کے مطابق گھر بھیجنا بھی آئینی اور جمہوری عمل ہے۔اسے فقط ’’سازش‘‘ ہی شمار نہیں کیا جاسکتا۔وزیر اعظم پر اس تناظر میں حملہ آور ہونے کے لئے البتہ مناسب وقت کا انتظار لازمی تھا۔
میری دانست میں عمران خان صاحب کی فراغت کا بہترین ماحول جون 2022میں بآسانی بہم ہوجاتا۔ اس ماہ نئے مالی سال کا بجٹ پیش ہونا ہے۔مقامی اور عالمی منڈی کے حقائق کو ذہن میں رکھیں تو عمران حکومت کے لئے عوام کو مطمئن کرنے والا بجٹ تیار کرنے کی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔اس کے علاوہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے آئی ایم ایف کی جانب سے ایسے تقاضے بھی ہورہے ہیں جن پر عملدرآمد سے مفر ناممکن نہیں تو بہت دشوار ضرورہے۔ اس کے تقاضے اگر نبھائے جائیں تو پاکستان میں مہنگائی،بے روزگاری اور کسادبازاری کا تدارک ممکن نہیں۔ نظر بظاہر عمران حکومت کے پیش کردہ بجٹ کے باعث اپوزیشن اگر ’’بس بھئی بس‘‘ والا پیغام دینے کو متحرک ہوئی نظر آتی تو عوام کی بے پناہ اکثریت اس کی ہمنوابن جاتی ۔
بہرحال بجٹ کا انتظار کرنے کے بجائے اپوزیشن جماعتوں نے اس کے پیش ہونے سے تین ماہ قبل ہی رواں مہینے کے آغاز میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔پارلیمانی حرکیات کا طالب علم ہوتے ہوئے میں مصر رہا کہ وزیر اعظم کے خلاف یہ تحریک پیش کرنے سے قبل اپوزیشن جماعتوں کو پہلا قدم سپیکر اسد قیصر کے خلاف اٹھانا چاہیے تھا۔سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے۔اس کی بدولت اپوزیشن جماعتیں اسد قیصر کو ان کے منصب سے ہٹانے میں کامیاب ہوجاتیں تو عوام کو واضح پیغام مل جاتا کہ عمران خان صاحب قومی اسمبلی میں اکثریت کھوبیٹھے ہیں۔ اسے کھودینے کے بعد انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان رہنے کا سیاسی ہی نہیں اخلاقی جواز بھی میسر نہ رہتا۔اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے وہ قومی اسمبلی سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ لینے کو مجبور ہوجاتے۔اب کی بار غالباََ ماضی کی طرح کامیاب نہ ہوپاتے۔
عمران خان صاحب کی فراغت کے لئے آئندہ بجٹ کا انتظار کرنے کے بجائے اپوزیشن جماعتوں نے مارچ کا آغاز ہوتے ہی متحرک ہوکر ذات کے رپورٹر کے ذہن میں کئی سوالات کھڑے کردئیے۔ان کے چند سرکردہ رہ نما تنہائی میں ہوئی ملاقاتوں میں بھی ان کے تسلی بخش جوابات فراہم نہ کرپائے۔میری جستجو بالآخر محض یہ تلاش کر پائی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے تئیں ٹھوس یا ناقص معلومات کی بنیاد پر یہ طے کرچکی ہیں کہ عمران خان صاحب آئندہ جون میں بجٹ پیش ہونے سے قبل مئی کے آخری ہفتے میں ایک اہم اور طاقت ور ترین ریاستی ادارے کے سربراہ کی بابت واضح اعلان کا ارادہ باندھے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں جو صاحب ان کی یک وتنہا ترجیح گردانے جارہے ہیں اپوزیشن جماعتیں خاص طورپر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ ان سے بہت نالاں محسوس کرتی ہیں۔تحریک عدم اعتماد کے ذریعے درحقیقت عمران خان صاحب کو ہٹانا نہیں بلکہ مفروضہ تعیناتی روکنا مقصود ہے۔اسی باعث قومی اسمبلی کے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد والا معقول ومنطقی دِکھتا ’’پہلا قدم‘‘ اٹھانے کے بجائے وزیر اعظم کو انتہائی عجلت میں براہ راست نشانے پر رکھ لیا گیا۔
معقول اور منطقی نظر آتے ’’پہلے قدم‘‘ سے گریز اب اپوزیشن جماعتوں کے گلے پڑ رہا ہے۔اسد قیصر نے آئینی احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن کی جانب سے طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس کو ’’14دنوں کے اندر‘‘ طلب نہیں کیا۔25مارچ کی تاریخ طے کردی ہے۔ اسد قیصر نے اس فیصلے سے حکومت کو ڈھٹائی سے جو مہلت فراہم کی اسے عمران خان صاحب نہایت ذہانت اور لگن کے ساتھ تحریک انصاف سے منحرف ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو عوام میں ’’گندا‘‘ کرنے کے لئے صرف کررہے ہیں۔اس کے علاوہ شہر شہر جاکر اپنے دیرینہ حامیوں (جسے انگریزی میں Core Constituencyیا Baseکہا جاتا ہے) کو بھی متحرک کرنے میں مصروف ہوگئے۔سپیکر کی جانب سے فراہم کردہ مہلت کی بدولت وہ اب اسلام آباد میں ’’دس لاکھ‘‘ حامیوں کا اجتماع منعقد کرنے کا ارادہ بھی باندھ چکے ہیں۔
دریں اثناء عمران حکومت نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کو بھی یہ طے کرنے میں الجھادیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران وزیر اعظم کے خلاف ووٹ دینے والے حکومتی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 63-Aکے تحت ’’فلور کراسنگ‘‘ کی وجہ سے محض موجودہ ایوان میں اپنی نشست سے محروم ہوجائیں گے یا ان کی نااہلی انہیں تاحیات قومی اسمبلی کی رکنیت کے حق سے محروم کردے گی۔ تحریک انصاف سے بغاوت کو تیار اراکین اسمبلی موجودہ قومی اسمبلی میں اپنی نشست کھونے کی فکر میں مبتلا نہیں۔تاحیات نااہلی کا خوف مگر انہیں مفلوج بنادے گا۔ اس خوف کی وجہ سے ان کی اکثریت شدت سے خواہش مند ہوگی کہ وزیر اعظم کیخلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پرقومی اسمبلی میں جلد از جلد گنتی کے عمل سے گریز ہو۔انتظار کرلیا جائے کہ سپریم کورٹ منحرف اراکین کے مستقبل کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 63-Aکے تناظر میں کیا طے کرتی ہے۔عمران خان صاحب کو قصہ مختصر خود کو سنبھالنے کا وافر وقت مل گیا ہے۔

مزیدخبریں