نیویارک (نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی) موسمیاتی تبدیلیوں، آبادی میں اضافے اور کاشتکاری کے طریقوں میں تبدیلی کے باعث آنے والی دہائیوں میں اربوں افراد کو پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا ہوگا۔ یہ انتباہ اقوام متحدہ (یو این) کی جانب سے پانی کے عالمی دن پر جاری کی جانے والی رپورٹ میں کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تاریخی لحاظ سے پانی کے استعمال کی شرح میں ہر سال ایک فیصد اضافہ ہوتا ہے اور آج کے مقابلے میں 2050 میں دنیا بھر میں لوگ 25 فیصد زیادہ پانی استعمال کر رہے ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق ضرورت سے زیادہ استعمال اور آلودگی کے ساتھ ساتھ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پانی کی قلت بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2016 میں 93 کروڑ سے زیادہ افراد کو پانی کی قلت کا سامنا تھا، یہ تعداد 2050 تک 2 ارب 40 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ پانی کی قلت کے حوالے سے بھارت دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہوگا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ دیہات کے مقابلے میں شہری آبادی کو پانی کی قلت کے باعث زیادہ مشکلات کا سامنا ہوگا۔ رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین نے بتایا کہ شہری سطح پر پانی کی طلب میں 2050 تک 80 فیصد اضافے کا امکان ہے اور اس عرصے میں پانی کی قلت کا سامنا کرنے والی شہری آبادی کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہو جائے گا۔ ماہرین کے مطابق عالمی آبادی میں اضافے کے باعث زراعت سے جڑی مصنوعات کے لیے طلب بھی بڑھے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے لگ بھگ ایک تہائی شہر زیر سطح پانی پر انحصار کرتے ہیں اور انہیں زرعی طلب میں اضافے کے باعث مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اقوام متحدہ نے بنیادی ضرورت پانی کے حوالے سے خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا پانی کے بحران کی جانب بڑھ رہی ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق پانی کے عالمی دن پر اقوام متحدہ واٹر فورم اور یونیسکو کی جانب سے رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً2 ارب لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور پانی بنیادی ضروریات میں سے ایک اہم جزو ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں پانی کے بحران کی وجوہات پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا ہے۔