پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی : 8 اکتوبرکو ہونگے : الیکشن کمشن 

اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار +نوائے وقت رپورٹ+ نامہ نگار) الیکشن کمشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 30 اپریل بروز اتوار کو ہونے والے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کر دیئے۔ الیکشن کمشن آف پاکستان کی جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 6 اکتوبر کو ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل رواں ماہ ہی الیکشن کمشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات پر پولنگ کیلئے شیڈول جاری کر دیا تھا۔  پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ فتنہ خان چاہتا ہے کہ اسے خون اور لاشیں ملیں تاکہ اس پر وہ اپنے افراتفری اور انارکی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے۔ عمران خان کی جانب سے ملک کو بحران سے دوچار کرنے کے لیے گھٹیا سے گھٹیا عمل کیا گیا، معاشی طور پر باقاعدہ جدوجہد کی کہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے، نومبر میں ایک اہم تعیناتی اور ادارے کو متنازع بنانے کی کوشش کی، وزیر آباد واقعے کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ بدھ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس میں ملک میں دہشتگردی اور امن و امان کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میں گزشتہ روز جام شہادت نوش کرنے والے پاک فوج کے جوانوں اور افسر کو سلام پیش کرتا ہوں۔ آفیسر بھی ان کے ساتھ ساتھ رہے ہیں اور یہی وہ امتیاز ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کی افواج دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں حاصل کررہی ہیں اور انہوں نے بڑی دلیری اور جرات کے ساتھ اس ناسور کو کنٹرول کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ایسا ادارہ ہے جس کی ملک و قوم کی ذمے داری ہے بلکہ اس سے افضل بھی کوئی ادارہ نہیں ہے، تمام اداروں کی اپنی اپنی آئینی حدود اور ذمے داریاں ہیں، سب کا اپنا آئینی اختیار ہے لیکن یہ پارلیمنٹ کے مرہون منت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سیاسی، انتظامی اور عدالتی بحران ہے لیکن یہ بحران نہیں ہے بلکہ پیدا کیا گیا ہے۔ اس میں اضافے کی کوشش ہو رہی ہے اور اگر ان کوششوں کی بات کی جائے تو بات ایک ہی شخصیت اور ایک جتھے پر جا کر رکتی ہے۔ حالات خراب نہیں ہیں لیکن خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک جماعت اور اس کا لیڈر جس کا نام عمران خان نیازی ہے، وہ پچھلے تقریباً 10سالوں سے اس نے یہ کوششیں شروع کی ہیں کہ ملک میں افراتفری، انارکی اور بحرانی کیفیت پیدا کی جائے۔ پانچ سال کے عرصے میں اس بندے نے ایک ہفتہ بھی سکون سے نہیں گزارا، 2018 میں کچھ قوتوں بالخصوص اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے الیکشنز کو چوری کیا اور الیکشن کو اس انداز سے مینج کیا کہ ان کو برسراقتدار لانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے کہا کہ میثاق معیشت کی پیشکش کی جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے یہاں تک کہا کہ عمران خان قدم بڑھا ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن موصوف یہاں پر اٹھے اور گالیاں دینا شروع کر دیں کہ آپ لوگ تو ڈاکو ہیں، اپنے کیسز ختم کرانا چاہتے ہیں، میں تو آپ کو چھوڑوں گا نہیں۔ نیب کو اس طرح سے استعمال کیا گیا، اگر نیب چیئرمین نے استعمال ہونے سے انکار کیا تو اس کی باقاعدہ ویڈیو لیک ہوئی۔ اس میں کوئی شک ہے کہ یہ ویڈیو لیک آپ نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پونے چار سالوں میں آپ نے معاشی طور پر ملک کا بیڑا غرق کیا، آئی ایم ایف کے ساتھ ایسا معاہدہ کیا کہ جس کی شرائط کو پورا کرتے کرتے آج مہنگائی اور ڈالر یہاں پہنچ چکے ہیں۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے ساری شرائط پوری کریں پھر آپ سے معاہدہ کریں گے۔ عمران خان نے سیاسی بحران پیدا کرنے، انتظامی بحران پیدا کرنے اور حالات کو بگاڑنے، ملک میں افرا تفری اور انارکی پھیلانے کی کوشش کی۔ یہ فساد ہے اور اگر قوم نے اس کا ادراک نہ کیا تو یہ قوم اور ملک کو کسی حادثے سے دوچار کر دے گا۔ نومبر میں ایک اہم تعیناتی اور ادارے کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کے بعد 90دن میں الیکشن کرانے کی آئینی قدغن ہے اور اس میں بھی افراتفری پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جوڈیشل کمپلیکس پر اور اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ آور ہوئے۔ یہ فتنہ چاہتا ہے کہ اسے خون اور لاشیں ملیں تاکہ اس پر یہ اپنے افراتفری اور انارکی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے۔ آئین میں درج ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن میں الیکشن ہونا چاہیے تو کیا آئین میں یہ بات درج نہیں ہے کہ الیکشن شفاف اور منصفانہ انداز میں ہونے چاہئیں۔ دونوں الیکشن ایک ہی دن کرانا طے پایا اور ساتھ ہی یہ طے پایا کہ پورے ملک میں نگراں سیٹ اپ ہو گا، کیا یہ چیزیں آئین میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بنیادی طور پر غلط ہے کہ ہم الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ اسمبلیوں کے الیکشن اکٹھے ہوں، نگراں سیٹ اپ میں ہوں، شفاف اور آزادانہ ہوں اور وہ ملک میں کسی نئے بحران کا پیش خیمہ بننے کے بجائے سیاسی استحکام لائیں، اگر عبوری سیٹ اپ نہیں ہو گا تو اس کے لیے کہنا بڑا آسان ہو گا وفاقی اور صوبائی حکومت موجود تھی اور شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار ہے۔ اس فتنہ، فساد کو روکنے کیلئے فری اینڈ فیئر الیکشن ضروری ہیں۔ ایک سابق چیف جسٹس کو یہ زیب دیتا ہے کہ مخالف فریق کے وکیل سے بات کرے؟، بابا رحمتے نے خاتون لیڈر کیخلاف جو الفاظ استعمال کیے دہرا نہیں سکتا۔ نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو نے کہا کہ معیشت نہیں چل رہی۔ مہنگائی اور دہشت گردی بڑے چیلنجز ہیں۔ وزیراعظم فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اے پی سی بلائیں۔ جتنی جلدی ہو‘ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں۔ غوث بخش مہر نے کہا کہ اگر الیکشن نہیں ہو سکتے تو سب کو سپیکر ایک جگہ پر بٹھا کر کوئی طریقہ ڈھونڈیں۔ ملک کو بحران سے نکالیں۔ قوم تقسیم ہو چکی ہے جو ملک کیلئے بہتر نہیں۔ اجلاس شروع ہوا تو 130 اراکین پارلیمنٹ جبکہ 8 وفاقی وزیر اجلاس میں موجود تھے۔ بعدازاں سپیکر نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بروز پیر سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کر دیا۔دریں اثنا وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں پنجاب کے انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کے خط پرغور کیا گیا۔ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے پنجاب الیکشن کے حوالے سے وزارت خزانہ، دفاع اور داخلہ کے مؤقف کی منظوری دی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے مؤقف اپنایا کہ موجودہ ملکی حالات میں الیکشنز کیلئے فنڈز نہیں دیئے جاسکتے۔ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کی جانب سے فیصلے سے متعلق الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا گیا۔دریں اثناء چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ اکتوبر تک پنجاب کے انتخابات ملتوی کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین سے کھلے انخراف کا مرتکب ہواہے۔آج ہر کسی کو اِس امید کیساتھ کہ یہ دستور کا تحفّظ کریں گے،عدلیہ اور قانونی برادری کی پْشت پرکھڑا ہوناہوگا۔کیونکہ آئین پر یہ سنگین حملہ اگر آج قبول کرلیاجاتاہے تو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خون ہوجائیگا۔ہم نے اپنی 2 صوبائی اسمبلیاں اس امید پرتحلیل کیں کہ 90 روز میں انتخابات کروائے جائیں گے،جسکا ہمارا دستور واضح حکم دیتاہے۔ہم نے یہ قدم فسطائیوں کے ایک ٹولے کو آئین سے انخراف اور قانون کی حکمرانی سے فرار کے ذریعے خوف و دہشت کا راج قائم کرنیکی اجازت دینے کیلئے نہیں اٹھایا تھا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...