بشیر ریاض برائے اشاعت۲۳مارچ۲۰۲۳
آج ۲۳ مارچ یومِ پاکستان کا دن ہے۔ مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کا یومِ ولادت بھی ۲۳ مارچ ہے۔ خوبصورت مماثلت اور حسین امتزاج ۔ تجدیدِ وفا اور تجدیدِ عقیدت کا دن۔ بیگم نصرت بھٹو دردمندعظیم خاتون تھیں۔ نہایت شفیق، ہمدرد، غمگسار شخصیت اور راہنما تھیں۔ کارکنوںکو پارٹی کا اثاثہ سمجھتی تھیں اور کارکن بھی ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ وہ غریب پرور خاتون تھیں۔ انسانی عظمت ان کے اوصاف میں شامل تھی۔
مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی زندگی انسانی حقوق کی پاسداری ،عوام میں سیاسی و جمہوری شعور بیدا رکرنے اور اس کا تحفظ کرتے ہوئے گزری ہے۔ ان کی جدوجہد اور قربانی کی یاد تازہ ہے۔ یومِ پاکستان اور بیگم صاحبہ کے یومِ ولادت نے اسے دوچند کر دیا ہے۔
مادرِ جمہوریت بلاشبہ عزم و استقلال کا پیکر اور غیرجمہوری قوتوں کے خلاف مزاحمت کی مضبوط علامت تھیں۔ انہوں نے جنرل ضیا کے بدترین مظالم کا جس جرأت و دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اور تاریخی کردار ادا کیا وہ ایک شاندار مثال ہے۔ مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انہوں نے فوجی آمر کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف اپنے کارکنوں کو یہ ولولہ انگیز پیغام دیا تھا کہ ’’ہمارے سرکٹ سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے اور ہم پاکستان کے لیے نسل در نسل لڑیں گے۔‘‘
ان کے اس واشگاف اعلان نے پارٹی کارکنوں میں بہت حوصلہ اور جوش پیدا کر دیا۔وہ جیل جانے سے خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ بہادری کے ساتھ اس کا سامنا کیا اور ظلم و تشدد کا آہنی عزم کے ساتھ مقابلہ کیا۔ بیگم نصرت بھٹو کی دلیرانہ جدوجہد جنرل ایوب کے دور سے شروع ہوئی اور جنرل ضیاء کے انتہائی سفاکانہ اور جابرانہ دور پر محیط ہے۔ ایوب خان نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی حکومت کے خلاف سرگرمیوں پر جیل میں ڈال دیا تو بیگم نصرت بھٹو اس کے خلاف میدانِ عمل میں آئیں اور بھٹو صاحب کی رہائی کے لیے بھرپور مہم چلائی۔
جناب بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔ بیگم نصرت بھٹو پارٹی کے ہراول دستہ میں شامل تھیں۔ انہوں نے شعبہ خواتین کو منظم کیا اور انہیں ان کے حقوق سے روشناس کرایا اور آمریت کے خلاف برسرِپیکار ہونے کی جرأت بخشی۔ انہوں نے خود بھی مارشل لاء کے ظلم و تشدد کو ہمت اور حوصلہ سے برداشت کیا اور آمر کے آگے سرجھکانے سے انکار کیا۔ جیل اور نظربندی ان کا دوسرا گھر بن گیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بیگم نصرت بھٹو اگر ضیاء آمریت کے خلاف سینہ سپر نہ ہوتیں، جبروتشدد اور بدترین مظالم کا سامنا نہ کرتیں ،ہر قسم کا تشدد برداشت کرنے کی مثال قائم نہ کرتیں ، بے مثال مہارت مہیا کرکے کارکنوں کا حوصلہ بڑھا کر متحرک نہ کرتیں تو پارٹی مضبوط ہو کر فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف آہنی دیوار ثابت نہ ہوتی۔ تو یہ انمول تاریخ رقم نہ ہوتی۔
جنرل ضیاء کی آمریت میں پارٹی کے غریب کارکنوں نے جو لازوال قربانی دی وہ بیگم نصرت بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت کی مرہونِ منت ہے۔ انہوں نے پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کارکنوں کا رشتہ مضبوط کیا۔ آمریت کے مظالم کو اُجاگر کیا۔ کارکنوں نے پھانسی کے پھندے بہادری سے قبول کیے۔ کوڑوں کی بھرمار برداشت کی اور جئے بھٹو کے نعرہ کو پاکستان کی فضائوں میں سیاسی گونج بنا دیا۔ جیل میں طویل سزائیں کاٹیں لیکن ان کے دلوں سے قائدعوام کی محبت اور عقیدت ختم نہ ہوئی۔ یہ کریڈٹ بلاشبہ بیگم نصرت بھٹو کو جاتا ہے کہ آمریت کے کئی سالوں کے باوجود عوام نے جمہوریت ،انسانی حقوق اور شرفِ انسانیت کا پرچم بلند رکھا۔
مادرِ جمہوریت نے عوام کے جمہوری حقوق، انسانی اور ثقافتی حقوق کے لیے جو آواز بلند کی بے نظیر بھٹو شہید نے اسے دنیا کے ہر کونے میں لے جانے کے لیے جو تاریخ ساز کردار ادا کیا وہ بیگم نصرت بھٹو کی اس جدوجہد کا ثمر تھا کہ آمریت کے طویل دور کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی سرخرو ہوئی، قائدعوام کی بیٹی نے وزیراعظم پاکستان کے عہدہ کا حلف لیا ۔ اس موقع پر بیگم صاحبہ کی آنکھوں میں آنسو حقیقی جذبات کے ترجمان تھے۔
پاکستانی عوام نے اپنے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل اور ناانصافی کا حساب چکا دیاہے۔ بیگم نصرت بھٹو کی یاد کے پھول کارکنوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔ وہ بیگم صاحبہ کے سیاسی کردار،عزم و استقلال، جرأت مندانہ بغاوت کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔