یوم پاکستان کا جذبہ اور نوائے وقت کا اجرا¿

23مارچ 1940ءکو منٹو پارک لاہور (مینار پاکستان) پر قائداعظمؒ محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانان برصغیر نے قرارداد پاکستان منظور کی اور ایک ایسے ملک کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا جو اسلامی فلاحی ریاست ہو اور وہاں تمام شہریوں کو بنیادی مساوی حقوق حاصل ہوں۔ علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو ایسا ملک حاصل ہو جہاں انہیں مذہبی آزادی کےساتھ ساتھ پروقار مساوی بنیادی حقوق حاصل ہوں۔ اسی روز نوائے وقت کا آغاز بھی ہوا اور منٹوپارک میں قائداعظم نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈرشن کے نوجوان قائد حمید نظامی کو ہندو پریس کے مقابلہ کیلئے مسلم لیگ کا ترجمان اخبار نکالنے کی ہدایت کی چنانچہ حمید نظامی نے اسی جلسہ میں نوائے وقت کا اجراءکا اعلان کیا۔ قرارداد پاکستان اور نوائے وقت کے ادارے کا قیام ایک ہی تاریخ پر ہوا۔ وقت نے ثابت کیا کہ نوائے وقت ہی نظریہ پاکستان کا حقیقی محافظ اخبار ہے جس نے تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کےلئے صف اول میں کردار ادا کیا ہے۔ 23مارچ 1940ءکو شروع ہونےوالی الگ مسلم مملکت کے قیام کی پرامن جدوجہد 7سال میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور اﷲ پاک کے فضل و کرم سے مملکت خداداد پاکستان دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آئی لیکن ہجرت کے دوران ہندو¶ں اور سکھوں کے مسلمانوں پر مظالم نے تحریک پاکستان کو تکمیل کے وقت خون آلود کردیا اور لاتعداد مسلمانوں نے قیام پاکستان کے وقت بے شمار قربانیاں دیں۔پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظمؒ کے لئے جہاں مہاجرین کو آباد کرنے کے مسائل تھے تو دوسری طرف نئی مملکت کو محدود وسائل میں اپنے پا¶ں پر کھڑا کرنے اور اداروں کا قیام بھی اہم تھا۔ قائد اعظمؒ نے اپنی صحت کے مسائل کی پرواوہ نہ کرتے ہوئے دن رات نئی مملکت کو پروان چڑھانے کےلئے انتھک محنت کی اور عام عوام نے بھی پوری نیک نیتی کے ساتھ مملکت کا ساتھ دیا۔ شروع کے ایام میں جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ خدانخواستہ ایک سال میں ہی پاکستان دوبارہ بھارت سے الحاق پر مجبور ہوجائے گا انہیں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستانی قوم نے ادارے بھی تشکیل دیئے اور تمام ممکن وسائل بھی پیدا کرکے نئی وجود میں آنیوالی ریاست کو اپنے پا¶ں پر کھڑا کیا۔ اس سلسلے میں تحریک پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے ذاتی سرمائے کو ملک کےلئے وقف کردیا۔
بھارت نے قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی پاکستانیوں کی خودداری اور انتھک محنت دیکھ کر پاکستان کو معاشی مشکلات میں ڈالنے کیلئے کشمیر پر قبضہ کرلیا لیکن دلیر بہادر قوم نے کم وسائل کے باوجود بھارت کو کشمیر میں پسپائی پر مجبور کردیا اور بھارت کو جان چھڑانے کےلئے اقوام متحدہ جاکر حق رائے دہی کا وعدہ کرنا پڑا جس پر اب تک عملدرآمد میں اقوام متحدہ کا ادارہ ناکام ثابت ہوا ہے۔ قائداعظمؒ کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ ایسا وقت بھی دیکھا جب پاکستان کے صدر ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکی صدر ان کا استقبال کرنے خود ایئر پورٹ پر آئے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی روپیہ اور امریکی ڈالر کی قدر برابر تھی۔ بھارت نے 1965ءمیں جارحیت کی اور پاکستان پر جنگ مسلط کی لیکن 17روز کی جنگ کے دوران بھی پورے پاکستان میں کہیں بھی نہ تو خوراک کی کوئی قلت پیدا ہوئی اور نہ ہی کسی بھی چیز کی قیمت میں کوئی اضافہ ہوا۔ اسی دور میں پاکستان نے موجودہ تمام چھوٹے بڑے آبی ذخائر تعمیر کئے اور نہری نظام کو توسیع دیکر آبی وسائل سے مکمل استفادہ حاصل کیا۔ اس دور میں پاکستان دوسرے ممالک کو امداد اور قرض فراہم کرنے والا ملک تھا۔
پھر ملکی تاریخ کے شفاف ترین الیکشن جو 1970ءمیں ہوئے۔ اسکے نتائج سیاستدانوں نے جھٹلائے اور ملک دولخت ہوگیا۔ اسلام کے نام پر جمع ہونے والوں کو نظر کھاگئی اور پھر بھائی‘ بھائی کا دشمن بن گیا۔ تنگ دلی اور ذاتی اقتدار و سیاست کو اولین ترجیح رکھنے سے ملکی مفاد پس پشت چلا گیا جس سے بنگلہ دیش وجود میں آیا اگر تمام سیاستدان بیک زبان الیکشن میں اکثریت حاصل کرنےوالی جماعت کو اقتدار دینے پر بضد ہوجاتے تو کسی کی کیا جرا¿ت تھی کہ وہ جمہوریت کے خلاف جاسکتا؟ لیکن بدقسمتی سے سیاستدانوں نے اپنی ذاتی سیاست و اقتدار کو اولین ترجیح دیکر ملکی مفاد کو پس پشت رکھا جس کے باعث پاکستان ٹوٹا۔1990ءکی دہائی میں بھی سیاستدانوں نے آپس میں لڑ جھگڑ کر ملک کو اس نہج پرپہنچایا کہ تسلسل کے ساتھ خبریں آرہی تھیں کہ پاکستان کو دہشت گرد اور ڈیفالٹر قرار دیا جارہا ہے۔ جنرل مشرف نے ٹیک اوور کیا اور دو سال میں ہی 28%پر ملنے والی شرح سود کو 4% کردیا۔ مشرف نے ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت عالمی مالیاتی اداروں کو قبل ازوقت ادائیگیاں کرکے ملکی قرضوں کا بوجھ نہ ہونے کے برابر کردیا اور ملکی تاریخ میں سب سے طاقتور بلدیاتی نظام رائج کرکے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے۔ انکے دور حکومت میں پاکستان کے بڑے قومی ادارے بھاری منافع کمارہے تھے اور ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی بہتر تھی۔ دیوالیہ ملنے والی معیشت میں 18ارب ڈالرز آگئے اور ان کے دورحکومت میں ڈالر و پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مستقل ایک سطح پر منجمد رہیں۔ ملک بھر میں کہیں بھی نہ تو گیس کی لوڈشیڈنگ تھی اور نہ ہی بجلی جاتی تھی۔ انہوں نے کسانوں کےلئے فلیٹ ریٹ پر ٹیوب ویلوں کو بجلی دینے کے ساتھ ساتھ نقدآور فصلوں کی انتہائی مناسب قیمت مقرر کی جس سے ملک پہلی بار خوراک میں خودکفیل ہوگیا۔2008ءکے بعد سے ملک ایک بار پھر سیاستدانوں کے ہاتھوںمیں ہے اور نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان کی معیشت دیوالیہ پن کے قریب ہے۔ حکومت کے ذمہ دار یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ اسٹیل ملز لینے والے کو پی آئی اے مفت دی جائیگی۔ عالمی مالیاتی اداروں کے قرض کی قسطوں کی ادائیگی کیلئے نیا قرض نہیں مل رہا۔ مہنگائی اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ اس وقت خبریں آرہی ہیں کہ آئی ایم ایف نے قرض منظوری کےلئے دور مار میزائل پروگرام بند کرنے کی شرائط رکھی ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ اقوام متحدہ اور ایشیائی ترقیاتی بینک سب ہی دراصل امریکہ ہے۔ جو کچھ بھی یہ ادارے کہتے اور کرتے ہیں اسکے پس پشت امریکہ ہی ہوتا ہے۔ اب سیاستدانوں کی نااہلی اور ذاتی مفادات کی سیاست نے ملک کو یہاں پہنچادیا ہے جہاں دفاعی نظام پر سمجھوتے پر مجبور کیا جارہا ہے۔یہی وہ وقت ہے جب ایک بار پھر قرارداد پاکستان والا جذبہ درکار ہے اور سیاستدانوں کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان کی ذاتی سیاست‘ ضد اور انا اولین ہے یا پھر ملک اور اس کا دفاع نظام۔ اب وقت ہے کہ تمام سیاستدان ملک بیٹھ کر گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز کرکے طویل مدتی قومی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ قوم ایک بار پھر تجدید عہد وفا کرکے ملک کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ ملک کے دفاعی اداروں کے وقار میں اضافے کیلئے ایک ہوجائے اور ملک کو اس نہج تک پہنچانے والے سیاستدانوں اور ملک کے دفاعی اداروں کےخلاف برسرپیکار تمام ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو ناکام بنائے۔ اگر اب بھی سیاستدانوں نے حالات کی خرابی کا ادراک نہ کیا تو ملک کو بچانے کیلئے تھرڈ آپشن کے سوا کوئی چارہ¿ کار نہیں رہے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن