پیارے نبی ﷺ کا اپنی امت کیلئے پیغام رمضان

علامہ منیر احمد یوسفی 

’’حضرت سیّدنا سلمان فارسی  سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ نے شعبان المعظم کے آخری دن ہم سے خطاب فرمایا :اے لوگو !تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ بڑی برکت والا ہے ۔اِس ماہِ ( مبارک) میں ایک رات اَیسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اِس ماہِ (مبارک) کے روزے اللہ تعالیٰ نے فر ض فرمائے ہیں اور اِس کی راتوں کا قیام ( بصورت ِنمازِ تراویح) زائد عبادت ہے(جورمضان المبارک میں ہی اَدا کی جاتی ہے ) جو کوئی صاحبِ اِیمان اِس ماہِ( مبارک) میں رَبِ( ذوالجلا ل والا کرام) کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لئے غیر فرض عبادت (یعنی سُنّت یا نفل ) اَدا کرے گا وہ گویا اَیسے ہو گا جیسے اُس نے دوسرے مہینے میں ایک فرض اَد ا کیا اور جو اِس ماہِ  ( مبارک) میں ایک فرض اَد ا کر ے گا وہ گویا اَیسے ہے جیسے اُس نے دُوسرے مہینے میں سترّ فرض اَد اکئے ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے نیز صبر والوں کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہے اور ارشادِ رب ذوالجلال والاکرام ہے ’’ اور وہ (لوگ) جنہوں نے صبر کیا ‘اپنے رب کی رضا پانے کو اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں چھپے اور ظاہر کچھ خرچ کیا اور برائی کا بدلہ بھلائی کر کے ٹالتے ہیں انہیںکے لئے پچھلے گھر کا نفع ہے۔بسنے کے باغ ہیں جس میں وہ داخل ہوں گے۔اور جو ان کے باپ دادا اور بیوی اور اولاد میںلائق ہوں گے اور فرشتے ہر دروازے سے اُن پر یہ کہتے ہوئے آئیں گے۔سلامتی ہو تم پر تمہارے صبر کا بدلہ تو پچھلا گھر کیا خوب ہی ملا‘‘(سورۃ الرعد:24)۔ صبر کرنے والوں کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ شان بیان کی ہے کہ جنت میں جس وقت داخل ہوں گے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرشتے اُن پر سلام بھیجیں گے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ ماہِ  ( مبارک) ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اِضافہ کیا جاتا ہے۔ اِس مہینہ میں جو صاحبِ اِیمان کسی (اِیمان والے )کا روزہ اِفطار کرائے گا (نیّت ِثواب و رضائے اِلٰہی  کے لئے) تو اُس کے لئے تین اَجر ہیں۔ (۱) اُس کے لئے اُس کے گناہوں کی بخشش ہو گی۔ (2) اُس کی گردن جہنم کی آگ سے آزاد ہوگی اور (3) اُس کو روزہ دار کی طرح ثواب ملے گا بغیر اِس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو ۔( حضرت سیّدنا سلمان فارسی فرماتے ہیں )ہم نے بارگاہِ رسالت مآبؐ  میں عرض کیا‘ یارسول اللہؐ  ہم میں سے ہر ایک کو روزہ اِفطار کرانے کا سامان میسر نہیں (تو کیا غرباء اِس ثواب کوحاصل کر سکیں گے؟) تو (غریبوں کے ملجٰی، یتیموں کے ماویٰ،بے کسوں کے والی ) رسولِ کریم رئوف و رحیمؐ نے اِرشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ ثواب اُس (غریب اِیمان والے کو) بھی عطا فرمائے گا جو دُودھ کے ایک گھونٹ سے، یا ایک کھجور سے یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ سے روزہ دار کا روزہ اِفطار کروائے گا۔ ( حضور نبی کریم رؤف ورحیمؐ نے سلسلۂ نورانی خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا) اور جو اِیمان والا کسی بندئہ مومن کو اِفطار کے بعد خوب پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا‘ اللہ تعالیٰ اُسے میرے حوضِ کوثرسے پانی پلائے گا اور اَیسا سیراب کرے گا کہ اُس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے۔ 
(بعد ازیں کریم آقاؐنے اِرشاد فرمایا ) یہ وہ ماہِ مبارک ہے کہ جس کے اَوّل حصّہ میں رَحمت ہے ۔درمیانی حصّہ میں مغفرت ہے اور آخری حصّہ میں آگ سے آزادی ہے اور جو صاحبِ اِیمان اِس مہینہ میں خادم یا ملازم کے کام یا اوقاتِ کار اور اوقاتِ مزدوری میں تخفیف کرے گا اللہ تعالی اُسے بخش دے گا اور اُسے دوزخ کی آگ سے آزادی عطا فرمائے گا ‘‘۔خطبۂ استقبالِ رمضان المبارک میں ماہِ رمضان المبارک کی برکتوں کی پیشگی کی اِطلاع دی جارہی ہے۔ اِس اِطلاع میں ماہِ رمضان المبارک کی عظمت اور فضیلت کا اِظہار ہے۔
سبحان اللہ! کیسے خوش نصیب صحابہ کرام  ہیں جن کے اِمام الانبیاء حبیبِ کبریا حضرت محمد مصطفیؐ ہیں۔ صحابہ کرام کیسے عظیم لوگ تھے جن کے خطیب ِبے مثال‘ اِمام الانبیائ‘ حبیب ِکبریا ‘رحمۃ للعالمین ‘خاتم النبیین ؐ ہیں کہ جب خطبہ اِرشاد فرماتے تو اُن کی زبان مبارک سے جو کلام نکلتا تھا وہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید اور اَحادیث ِمبارکہ کے اَنوار وتجلیات سے صحابہ کرام کے سینوں کو منور فرماتا تھا۔
روزے گنتی کے دِنوںمیں آتے ہیں اور گنتے گنتے گزر جاتے ہیں۔ رَب ِکائنات نے محدود دنوں کے باوجود اہل ایمان کے لئے آسانیوں کی بشارت عطا فرمائی کہ اگر کوئی بیمار ہو یا مسافر ہو وہ کسی روزہ کے رہ جانے کی صورت میں بعد کے ایّام میں گنتی پوری کر لے کیونکہ رب تعالیٰ اپنے بندوں کو آسانیاں عطا فرماتا ہے ‘دشواریاں نہیں چاہتا۔
روزہ کی غرض و غایت اور منشاء اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنا‘ جذبات کے طوفان سے اپنے آپ کو بچا لینا ‘ حرام سے بچنا‘ نفس کا زور توڑنا‘ دِل میں صفائی پیدا کرنا اور مساکین و فقراء کی موافقت کرنا ہے۔ اِن اوصاف کا نتیجہ‘ حصولِ تقویٰ ہے۔ اِسی لئے ربِّ ذوالجلال والاکرام نے فرمایا ہے  ’’اے اِیمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی ہو جائو۔‘‘ یعنی روزے کا ثمرہ یہ ہے کہ تمہیں ’’تقویٰ‘‘ حاصل ہو۔ 
حضرت ابوہریرہ   سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ نے فرمایا: جب رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن قید کر دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں کہ اُن میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جن میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے بھلائی چاہنے والے آ‘ اور برُائی چاہنے والے باز آ اور اللہ( تبارک و تعالیٰ جَلَّ مجدہُ الکریم) کی طرف سے لوگ آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں اور یہ ہر رات ہوتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ ص173‘ مرآۃ جلد3 ص136‘ ترمذی جلد۱ حدیث نمبر684‘ مستدرک حاکم جلد۱ ص حدیث نمبر421‘ درمنثور جلد1 ص183‘ السنن الکبریٰ للبیہقی جلد4 ص303‘ حلیۃ الاولیاء جلد8 ص306‘ کنزالعمال حدیث نمبر 23664۔)
حضرت ابوہریرہ   سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ نے فرمایا: ’’اِبنِ آدم کے ہر عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ  اِرشادِ مبارک فرماتا ہے‘ سوائے روزہ کے کہ روزہ تو میرا ہے۔ اور میں ہی اِس کا ثواب دوں گا۔ روزہ دار میر ے لئے اپنی خواہشات اور کھانا پینا چھوڑتا ہے روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ایک خوشی اِفطار کے وقت ‘ دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ (تبارک و تعالیٰ) کے ہاں مشک کی خوشبو سے بہتر ہے اور روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو نہ برُی بات کہے اور نہ شور مچائے۔ اگر کوئی اُس سے (یعنی روزہ دار سے) گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تو یہ (روزہ دار) کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔(بخاری جلد1 ص255-254‘ ابن ماجہ ص119‘ نسائی جلد۱ ص308‘ )
حضرت سہل بن سعد   سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ  نے فرمایا: ’’جنت میں آٹھ دروازے ہیں ایک دروازے کا نام ’’الرَّیّان‘‘ ہے جس میں سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے‘‘۔ (بخاری جلد1 ص254‘ مسلم جلد۱ ص364‘ ابن ماجہ ص119‘ نسائی جلد۱ ص312‘ مشکوٰۃ ص173 )   ریّان تروتازگی‘ سیرابی اور سبزی کے معنوں میں ہے چونکہ روزہ دار روزوں میں بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور بمقابلہ بھوک کے پیاس کی زیادہ تکلیف اُٹھاتے ہیں۔ اِس لئے اُن کے داخلے کے لئے وہ دروازہ مختص ہوا ہے جہاں پانی کی نہریں‘ بے حساب سبزہ‘ پھل اور سیرابی ہے۔ اُس کا حسن آج نہ تو ہمارے وہم و گمان میں آ سکتا ہے اور نہ ہی بیان میں۔ روزہ چور یا روزہ توڑ یا روزہ خور مسلمان اگرچہ سزا کے بعد یا سزا سے پہلے رحمتِ خداوندی اور شفاعتِ مصطفی کریمؐ سے بخش بھی دیئے جائیں اور جنت میں داخل بھی ہو جائیں مگر وہ پھر بھی اِس دروازے سے جو روزہ داروں کے لئے مختص ہے‘ داخل نہیں ہو سکتے۔
رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ نے ماہِ رمضان المبارک میں اِیمان والوں کو ایک دوسرے سے مضبوط تعلقات استوار کرنے کے لئے خوبصورت پیکج عطا فرمایا ہے کہ جو اِیما ن والا اپنے دوسرے اِیمان والے بھائی کا روزہ اِفطار کروائے گا‘ اُسے تین انعامات ملیں گے۔ (1) بخشش کا پروانہ۔ (2) دوزخ سے آزادی کا سرٹیفیکیٹ اور (3) روزے دار جتنا ثواب۔ اور یہ پیکج صرف امیروں کو ہی نہیں عطا فرمایا بلکہ غرباء پر بھی کرم فرمایا ہے کہ اگر کوئی غریب آدمی دُودھ کے ایک گھونٹ‘ ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے روزہ اِفطار کرائے گا‘ اُسے بھی اِنہی انعامات سے نوازا جائے گا۔ روزہ کی برکت سے بہن‘ بھائیوں اور قرابت داروں کے تعلقات کی مضبوطی اور ایک دوسرے سے محبت اور پیار کے بندھن کو مضبوط کرنے کا خوبصورت پیکج عطا فرمایا ہے ۔
 مزید بر آں اِرشاد فرمایا کہ جو شخص اِفطاری اورنماز کی ادائیگی کے بعد روزہ دار کو خوب پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گااُس کو ایسی نعمت سے نوازاجائے گا جو قیامت کے ہولناک اور خوفناک وقت کے لئے اِنتہائی ضروری ہے۔ وہ نعمت ِمبارکہ یہ ہے کہ جو کسی روزے دار کو خوب پیٹ بھر کھانا کھلائے گا، اللہ کریم اُسے رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ  کے حوضِ کوثر سے پانی پلائے گا اور جنت میں داخل ہونے تک اُسے پیاس نہیں لگے گی۔ کیسے خوش نصیب وہ لوگ ہوں گے‘ جنہیں قیامت کے دن خود خالقِ کائنات پانی عطا فرمائے گا۔
آج وقت ہے کہ ہم اِس انعام الٰہی کو حاصل کرنے کے لئے تھوڑی سی ہمت کرلیں ۔یہ ضروری نہیںکہ دس بیس اورسو پچاس روزے داروں کی اِفطاری کروائی جائے تو اِفطاری ہوگی بلکہ ایک روزہ دار کی اِفطاری پر بھی اِتنا ہی انعام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا انعام نہ گنا جاسکتا ہے نہ تولاجا سکتاہے ۔

ای پیپر دی نیشن