ری پبلکن والے امریکہ کے ’’مستقل‘‘ سفیر زلمے خلیل زاد پاکستان کے پرانے مہربان ہیں۔ ماضی میں وہ ہماری رہنمائی کرتے رہے کہ خارجہ پالیسی کیسے بنائی جائے اور وہ کیسی ہو۔ پاکستان پر جب ایک ’’ری پبلکن ‘‘ نمائندے یعنی جنرل مشرف کی حکومت تھی تو زبردست ماحول تھا۔ زلمے خلیل زاد نے ایک بار پاکستان کے شمالی علاقے میں امریکی فوج اتارنے کی بات بھی کی تھی۔ یہ پیشکش اپنے ’’ری پبلکن‘‘ ہمزاد پرویز مشرف کے فائدے میں ہی کی گئی ہو گی۔ بہرحال بوجوہ اس پر عمل نہ ہو سکا۔
اب انہوں نے خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ داخلہ پالیسی پر بھی رہنمائی فراہم کرنا شروع کر دی ہے۔ صبح سے ان کے اس ٹویٹ کا چرچا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے مفاد میں کچھ قیمتی مشورے دئیے ہیں اور ان سب مشوروں کا تعلق ملک کے داخلی حالات سے ہے۔ کچھ یوں فرمایا ہے کہ حکومت عمران خان کے خلاف کسی بڑے قدم سے باز رہے ورنہ اس کے نتیجے میں سیاسی‘ اقتصادی اور ’’سکیورٹی‘‘ خطرات پیدا ہو جائیں گے۔ یعنی ملک کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ وہی بات ہے جو عمران خان بھی کرتے رہتے ہیں کہ میرے خلاف کچھ کیا تو ملک ہاتھ سے نکل جائے گا۔ زلمے خلیل زاد نے ملک ہاتھ سے نکلنے کی بات نہیں کی صرف خطرے کی بات کی ہے۔ اگلے ٹویٹ میں وہ ہاتھ سے نکلنے والی بات بھی کر دیں گے۔ اس کی امید ہے اور امید کی جانی چاہئے۔
انہوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ رکوانے یا روکنے کی بات بھی کی۔ خبر ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے لئے آخری کوششیں شروع کرنے والی ہے۔ زلمے خلیل زاد کے ہدایت نامے کے بعد یہ کوششیں ’’سعی رائیگاں‘‘ کے کھاتے ہی میں گنی جائیں گی۔
پی ٹی آئی بہت خوش ہے۔ ٹوئیٹر پر اس کے کئی رہنماؤں کے ’’بیانات‘‘ از قسم تہنیت و مسرت آئے ہیں۔ واشنگٹن میں پی ٹی آئی نے وائٹ ہاؤس کے سامنے ا یک مظاہرہ بھی کیا ہے جس میں پاک فوج اور اس کے چیف کے بارے میں ’’کلمات ہائے حق‘‘ بیان کئے گئے ہیں۔ ایسے ہی کلمات حق پاک فوج اور اس کے چیف کے بارے میں کچھ بھارتی ٹی وی چینل بھی کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ ٹی وی چینل بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دنیا بھر کے سارے حق گو خیالات کی ہم آہنگی اور یکسانی کے حامل ہیں۔ بالخصوص معاملہ اگر پاکستان کا ہو۔
__________
زلمے خلیل زاد افغان نژاد امریکی ہیں۔ ان کی اہلیہ ادیان ابراہیمی میں سے ایک کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ یہ دین مسیحی دین نہیں ہے۔ ان کے بچے بھی یہی دین ابراہیمی رکھتے ہیں۔ زلمے صاحب کی اہلیہ کا نام شرل بینرڈ ہے۔ ان کے بچے اپنے نام کے آگے زلمے یا خلیل زاد کا نہیں‘ بینرڈ کا لاحقہ لگاتے ہیں کیونکہ اس دین کی یہی روایت ہے‘ اس میں بچے باپ نہیں‘ ماں سے منسوب ہوا کرتے ہیں۔
جو خیالات زلمے کے ہیں‘ وہی بی جے پی کے بھی ہیں اور اتفاق سے وہی ٹی ٹی پی والوں کے بھی ہیں۔ یہ اتفاق مبارک ہو ’’مومنوں‘‘ کیلئے۔ پی ٹی آئی کے سوشل ولاگرز نے ولاگز کا تانتا باندھ دیا ہے۔ عنوان کچھ اس طرح سے ہیں‘ مبارک ہو‘ امریکہ حق سچ کی حمایت میں سامنے آ گیا۔ پاکستان کے غاصب جابر حکمرانوں اور طاقتوروں کے برے دن آ گئے‘ حقیقی کرداروں کا جہاد کامیاب ہونے والا ہے۔ مبارک ہو‘ مبارک ہو‘ مبارک ہو
__________
زلمے خلیل زاد بہرحال امریکہ نہیں ہے‘ ریپبلکن امریکہ کی نمائندگی کرتا ہے‘ ڈیمو کریٹک امریکہ کی نہیں اور ری پبلکن امریکہ کے بھی ایک حصے یا ایک لابی کی۔ اس لابی کی جو پاکستان سے ایٹمی ہتھیار لے لینا چاہتی ہے‘ جو دریائے اٹک کے پار ایک الگ ’’گریٹر‘‘ ملک بنانا چاہتی ہے‘ جو بلوچستان کو ’’آزاد‘‘ کرنا چاہتی ہے اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نئے اور سمارٹ نقشے کو لانا چاہتی ہے۔ ایسا سمارٹ پاکستان جو صرف سندھ اور پنجاب پر مشتمل ہو۔ اس نقشے میں ٹی ٹی پی ایک ترمیم چاہتی ہے۔ یہ کہ آزاد کشمیر بھی ’’گریٹر‘‘ کا حصہ بنایا جائے۔
یہ لابی طاقتور ہے لیکن اتنی طاقتور نہیں کہ نقشہ ہی بدل دے۔ پی ٹی آئی والے تسلی رکھیں۔ حقیقی آزادی کا جہاد زلمے کے لشکر کی شمولیت کے باوجود کامیابی سے بہت دور ہے‘ اتنی ہی دور جتنی آرمیڈا نام کی کہکشاں ہمارے نظام شمسی سے دور۔ بلکہ لگ تو یہ رہا ہے کہ زلمے کی رن میں آمد سے حقیقی آزادی کی لٹیا اور لڑھک جائے گی۔
__________
پنجاب حکومت نے پولیس کو فری ہینڈ سچ مچ دیا ہے یا نہیں دیا ہے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اس نے فری ہینڈ دینے کا اعلان ضرور کیا ہے اور اعلان کی تاثیر کچھ اس طور نمودار ہوئی ہے کہ زمان پارک کی ’’مردم شماری‘‘ میں خاطرخواہ کمی واقع ہو گئی ہے۔ اور وہ بہت سے لوگ جو دن رات یہی کہا کرتے تھے کہ خان تک پہنچنے والوں کو ہماری لاشوں سے گزرنا ہو گا‘ اب زمان پارک کے ’’نو گو ایریا‘‘ میں نظر نہیں آتے۔
ایک معاصر نے تو یہ خبر بھی چھاپ دی ہے کہ پارٹی کے رہنماؤں نے خان کو مشورہ دیا ہے کہ چونکہ ’’انبوہ جانبازاں‘‘ میں دوتہائی کی کمی واقع ہو گئی ہے اس لئے زمان پارک پہلے جیسا محفوظ نہیں رہا‘ رہائش گاہ بدل ڈالو۔
پتہ نہیں خاں صاحب اس مشورے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں لیکن انہوں نے جان بچانے کا فریضہ ادا کرنے کے لئے کچھ اقدامات ضرور کئے ہیں۔ گزشتہ روز وہ شناخت چھپا کر عدالت تشریف لائے۔ چہرے کے اوپر کوئی سکارف جیسی شے تھی۔ خاں صاحب کو اطلاع تھی کہ کوئی قاتل کمرہ عدالت میں گھات لگائے بیٹھا ہے۔ ضرور بیٹھا ہو گا اور اگر بیٹھا ہو گا تو خاں صاحب نے اسے الو بنا دیا۔ وہ سکارف کی وجہ سے پہچان ہی نہ سکا کہ یہ کون ہے۔ اسے پتہ ہی نہ چلا‘ خاں صاحب آئے بھی اور گئے بھی۔ اسے کہتے ہیں ’’سمارٹ موو‘‘
__________
اعجاز الحق نے پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد بیان دیا ہے کہ وہ اپنے سورگ باشی والد ضیاء الحق کے ادھورے مشن کی تکمیل خاں صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں کریں گے۔
ہماری غلط فہمی دور ہو گئی‘ یہ کہ ضیاء الحق پر لوک سدھارنے سے پہلے اپنا مشن پورا کر چکے ہیں۔ پتہ چلا ابھی ادھورا ہے‘ پورا ولولہ انگیز قیادت کے سائے میں اب ہو گا۔
ادھر عمر ایوب اپنے والد ایوب خاں کا مشن پورا کرنے میں لگے ہیں‘ ہمایوں اختر‘ اختر عبدالرحمنٰ کا‘ پرویز الٰہی پرویز مشرف کا۔ پھر حیرت ہے کہ خاں صاحب کس مشن کو پورا کر رہے ہیں؟ ساڑھے تین سال انہوں نے باجوہ کا مشن پورا کیا‘ بالکل ٹھیک لیکن اب کس کا مشن درپیش ہے۔‘ شاید کوئی مشترکہ مشن ہو گا۔
نیب راہ دیکھتا رہ گیا‘ طلب کرنے کے باوجود عمران پیش ہوئے نہ بشریٰ بی بی۔ پیش ہونا بھی نہیں تھا۔ ایوب سے لے کر پرویز مشرف تک پاکستان کے ہر ’’آئینی‘‘ حکمران کے شبھ چنتک ایس ایم ظفر کے سپُتر علی ظفر نے ایک روز قبل یہ بیان دیا تھا کہ خاں صاحب اور بشری بی بی کو پیش ہونے کی ضروت ہی نہیں ہے۔ اس مشورے کی روشنی میں ہر دو پیش نہیں ہوئے۔
درحقیقت خاں صاحب کو پیش ہونے کی کہیں بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ کہیں پیش ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی عنایت ہے یا پھر نظریہ ضرورت کا تقاضا۔
__________