فضل حسین اعوان
شوکت خانم ہسپتال کا سفر جاری ہے۔ ابتداءمیں یہ کڑا اور کٹھن سفرتھا۔ قافلے روانہ ہونے سے پہلے تیاری کرتے ہیں۔ اس پر وقت لگتا ہے مشقت کرنی پڑتی ہے۔ جب قافلے چل پڑتے ہیں تو سفر آسان اور سہل ہوتا چلا جاتا ہے گو سفر کی دشواریاں اپنی جگہ ضرور رہتی ہیں۔ شوکت خانم کینسر میموریل ہسپتال کے سفر میں کئی راہرو آئے اپنا اپنا کردار ادا کیا اور چلے گئے۔ یہ ہسپتال ڈونیشنز صدقات اور زکوٰة پر چلتا ہے۔75فیصد مریضوں کا علاج فری جبکہ25فیصد ادائیگی کرتے ہیں۔ ہسپتال کی آمدن کے ذرائع میں ملک بھر کے بڑے شہروں میں اس ہسپتال کی لیبارٹریز بھی بروئے عمل ہیں۔
فنڈریزنگ کی تقریبات اندرون کے ساتھ بیرون ممالک میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ رمضان المبارک میں دو مرتبہ لاہور کے میں تقریبات کا انعقاد ہوتا۔ میں 2010ءسے ان تقریبات میں شریک ہوتا آرہا ہوں۔ کرونا کے دوران دو یا تین سال یہ تقریبات انعقاد پذیر نہیں ہو سکیں۔ عمران خان ہر تقریب میں گزشتہ اور رواں سال کے سوا موجود ہوتے تھے۔ انہوں نے اس پراجیکٹ کو سیاست سے دور رکھا ہے۔ تقریبات زیادہ تر ہسپتال کے اندر گراو¿نڈ میں ہوتی رہی ہیں۔ کسی ہوٹل یا ایکسپو سنٹر میں بھی ہو چکی ہیں۔ کل بھی فنڈ ریزنگ کی تقریب تھی۔ مہمان کبھی ہزار بارہ سو بھی ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے ہسپتال کے فنڈ سے ایک روپیہ بھی گرینڈ افطار ڈنر پر خرچ نہیں ہوتا۔ کوئی ایک شخص یا پارٹی اخراجات اٹھا لیتی ہے۔ کبھی ایک سے زیادہ بھی حصہ دار بن جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا یا کسی عزیز کا ہسپتال سے علاج کرایا ہوتا ہے۔ وہ سارا اہتمام اظہار تشکر کے طور پر کرتے ہیں۔
شروع میں سفر جاری کی بات کی تھی۔ کیا یہ سفر کبھی ختم ہوگا، شاید کبھی نہیں۔ اگر عمران خان جیسی کمٹمنٹ رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ میں معاملات رہتے ہیں تو جواب یقینی طور ہر یہی ہے۔ اس سفر کا اختتام تب ہوگا جب اتنے ہسپتال بن چکے ہونگے کہ مزید کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ابھی پاکستان میں لاہور ، پشاور اور کراچی میں بنے ہیں۔ کراچی ہسپتال تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔اس کے بعد کسی اور شہر میں نیا ہسپتال بنے گا۔
گزشتہ سال فنڈ ریزنگ تقریب میں 16کروڑ روپے کا ٹارگٹ تھا جو پورا ہوگیا کل کے ڈنر میں بھی اتنا ہی ہدف تھا مگر 28کروڑ پچاس لاکھ روپے جمع ہو گئے۔ آگے چلنے سے پہلے کل کی تقریب کی مختصر روداد آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
ٍشوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر کی انتظامیہ کی جانب سے ہسپتال کے ڈونرز کے اعزاز میں لاہور میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔اس موقع پر شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسرڈاکٹر فیصل سلطان نے حاضرین کو ہسپتال کے حوالے سے بریفننگ دی جس کے آغازپر شوکت خانم ہسپتال کے دیرینہ خیر خواہ اور افطار ڈنرز کا آغاز کرنے والےمرحوم شاہد بٹ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں تمام مریضوں کو بلا تفریق علاج کی اعلیٰ ترین سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ہماری طبی سہولیات کے معیار کو امریکی ادارے جوائنٹ کمیشن انٹرنیشل کا سرٹیفیکیٹ بھی حاصل ہے۔ 2023 میں ہسپتال میں تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار نئے مریضوں کو علاج کیلئے داخل کیا گیا۔ پاکستان میں ہر سال پونے دو لاکھ کینسر کے نئے کینسر کے کیس سامنے آتے ہیں جن کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے مزید ہسپتال بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سال کے ہے ہمارا ٹارگٹ 35 ارب روپے ہے۔
کراچی ہسپتال کے پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے اور اس کی تکمیل دو سال میں ہو جائے گی۔ ڈاکٹر فیصل نے اورتقریب کے مہمان خصوصی اداکار فواد خان نے اس موقع پر لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی زکوٰ? شوکت خانم کینسر ہسپتال کو دیں کیونکہ یہ ادارہ کینسرکے نادار اور غریب مریضوں کے لئے امید کی واحد کرن ہے۔ ان کی اپیل پر افطار ڈنر میں موجود خواتین وحضرات نے ہسپتال کے لیے بڑھ چڑھ کر عطیات دیے اور چند گھنٹوں میں میں ساڑھے اٹھائیس کروڑ کے عطیات جمع ہو گئے.
فنڈ ریزنگ تقریبات میں جتنا بھی ٹارگٹ رکھا جاتا، وہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ دس روپے سے کروڑہا روپے دینے والے لوگ دیکھے جاتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا اور انڈین لیجنڈ ایکٹر عامر خان پاکستان آکر ایسی تقریبات میں شرکت کر چکے ہیں۔
پانچ چھ سال سے علیم خان چھ کروڑ روپے جمع کرارہے ہیں۔ سیاست سے بالاتر ہو کر اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
دعا تو یہ ہے کہ ہربیماری کا خاتمہ ہو اور وطن میں ایک بھی ہسپتال کی ضرورت نہ رہے۔ مگر یہ ایسی خواہش ہے جو صرف جنت میں ہی پوری ہو سکتی ہے۔ یہ دنیا جنت نہیں ہے۔آزمائش کی جگہ ہے۔خوشی غمی، مصیبت آسائش، عِشرت،عسرت، ظلم انصاف،تاریکی روشنی،تنگ دستی و فراوانی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔اوپر والاہاتھ وسیلے والا، نیچے کا ہاتھ ضرورت مندی کا عکاس۔خودداری ہاتھ پھیلانے کی روادار نہیں ہوتی۔بڑا پن ہے کہ کسی کا ہاتھ ا±ٹھنے سے قبل مداوا کردیا جائے۔شوکت خانم ہسپتال جیسے ادارے ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے چل رہے ہیں۔
شوکت خانم ہسپتال لاہورنے 29دسمبر 1994کو اپنے دروازے مریضوں کے لیے کھولے اور اس وقت سے آج تک خدمت کا یہ سفر کبھی نہیں رکا بلکہ وقت کے ساتھ مزید لوگ بھی اس مشن کا حصہ بنتے گئے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا اور مارچ 2011ئ میں پشاور میں دوسرے شوکت خانم ہسپتال بنیاد رکھی گئی جس میں 29دسمبر 2015 کومریضوں کو خدمات فراہم کرنے کا آغاز کر دیا گیا۔
انتظامیہ کے مطابق شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کی سال 1989سے آج تک کی آڈٹ رپورٹ ویب سائٹ پر موجود ہے۔
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ نے باقاعدہ شریعہ کمپلائنس سرٹیفیکیشن حاصل کی ہے جو اس بات کی تائید کرتی ہے ہسپتال کے زکوٰ? کے حصو ل، استعمال اورزکوٰ? فنڈ کی مینجمنٹ کا نظام شرعی اصولوں کے عین مطابق ہے۔
کراچی میں پاکستان کا تیسرا اور سب سے بڑا کینسر ہسپتال زیرِ تعمیر ہے۔ اس وقت اس ہسپتال کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور فنشنگ کا کام جاری ہے۔ اس ہسپتال کی مکمل لاگت کا تخمینہ تقریباً 22ارب روپے ہے۔
کراچی کا یہ ہسپتال لاہور کے شوکت خانم ہسپتال سے رقبے اور سہولیات کے اعتبار سے تقریباً دو گنا بڑا ہے۔
ہسپتال کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی سمیت پور ے سندھ اور جنوبی بلوچستان کے لوگوں کو کینسر کے علاج کی جدید سہولیات ایک ہی چھت تلے میسر ہو جائیں گی۔
شوکت خانم ہسپتال کا کیا اتنا ہی کام اور مشن تھا؟ ایسا نہیں ہے۔ہم مادی دنیا کے مکین ہیں۔ بیماریوں اور مشکلات کا خاتمہ دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ہی ہونا ہے۔صحت اور مرض ساتھ ساتھ، امراض پرکسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔امیر لوگ کہیں سے بھی پیسہ خرچ کے علاج کرواسکتے ہیں۔پیسے سے علاج ممکن ہے مگر شفا کی گارنٹی نہیں۔شوکت خانم کی تیسری اور سب سے بڑی برانچ مکمل ہونے کے بعد اگلی کہاں بنے گی۔اس کا فیصلہ بورڈ پورے ملک کا جائزہ اور وسائل کو دیکھ کر کرسکتا ہے۔سرِ دست کراچی ہسپتال کی تکمیل اور لاہور وپشاورکے ہسپتالوں کو چلائے رکھنے کی ضرورت ہے۔دیکھیں اس حوالے سے ہم کیا کرسکتے ہیں۔
شوکت خانم ہسپتال : سفر جاری
Mar 23, 2024