مضمون نگار: رانا ضیاءجاوید جوئیہ
ہندوستان میں اسلام کے ابتدائی دور سے ہی مسلمان تاجروں کی آمدورفت شروع ہو گئی تھی اور پھر ساتویں صدی عیسوی میں تو مسلمانوں کی باقاعدہ عسکری مہمات یہاں پر ہوئیں محمد بن قاسم کے بعد سلطان محمود غزنوی، سلطان غوری اور پھر قطب الدین ایبک نے ہندوستان میں 1206 میں باقاعدہ طور پر ایک مسلمان حکومت بنا دی لیکن یہ تو مسلمان حکومت تھی جو 1206 میں بنی مسلمان قوم تو ہندوستان میں اس دن سے ہی بن گئی تھی جس دن یہاں کے پہلے ہندوستانی نے اسلام قبول کیا تھا اس سلسلہ میں قائداعظم محمد علی جناح نے 8 مارچ 1944 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اجلاس سے خطاب میں ہندوستان میں مسلم قومیت کے بارے میں فرمایا،"پاکستان اس دن وجود میں آ گیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہی ہوئی تھی مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے نہ کہ وطن اور نسل ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا وہ پہلی قوم کا فرد نہی رہا وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا اور ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی"
قائداعظم محمد علی جناح کے اس تصور کی بنیاد علامہ اقبال اور چوہدری رحمت علی کے نادرالوجود خیالات سے تھی چوہدری رحمت علی نے تو لندن میں ہونے والی تیسری گول میز کانفرنس کے شرکاء میں ایک پمفلٹ'"اب یا کبھی نہی" تقسیم کیا اور علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبہ الہ باد میں 1930 میں ہندوستان کی تقسیم کا واضح نقشہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پورے دلائل کے ساتھ پیش کیا اور اسی تسلسل میں سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں ہندوستان کی تقسیم کے حق میں قرارداد منظور کی اور بالاآخر 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں شیر بنگال اے کے فضل الحق نے ایک قرارداد پیش کی جس میں واضح طور پر دو قومی نظریہ اور مسلم جداگانہ تشخص کی بنیاد پر علیحدہ مملکت کا مطالبہ ان الفاظ میں کیا گیا '" آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی یہ مسلمہ رائے ہے کہ کوئی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل اور مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہی ہوگا تاوقتیکہ وہ مندرجہ ذیل بنیادی اصولوں پر وضح نہ کیا گیا ہو یعنی جغرافیائی طور پر متصل وحدتوں کی حدبندی ایسے خطوں میں کی جائے (مناسب علاقائی ردوبدل کے ساتھ) کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہےمثلا ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ان کی تشکیل ایسی آزاد ریاستوں کی صورت میں کی جائے جن کی وحدتین خودمختار اور مقتدر ہوں نیز ان وحدتون اور خطوں میں اقلیتوں کے اور ہندوستان کے دوسرے حصوں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے حقوق و مفادات کا مناسب تحفظ کیا جائے"
قارئین گرامی اس قرارداد کے مندرجہ بالا پورے متن میں کہیں بھی پاکستان کا ذکر نہی کیا گیا لیکن ہندو قوم جو پورے ہندوستان میں رام راج کے قیام کا منصوبہ بنائے بیٹھی تھی اور اگر ہندوستان سے انگریز تقسیم کے بغیر چلے جاتے تو جمہوری نظام کے تحت ہندووں کے مستقل اقتدار کی صورت میں انکا یہ خواب پورا ہوتا بھی نظر آ رہا تھا بوکھلا اٹھی اور ہندو پریس نے اس قرارداد لاہور کو پہلی مرتبہ قرارداد پاکستان کا نام دے دیا
قارئین گرامی ہندوستان کے مسلمانوں نے کلمہ توحید کی بنیاد پر مسلم قومیت کے تصور کی بنیاد پر تحریک پاکستان شروع کی اور پورے جزبوں اور قربانیوں سے بالاآخر 14 اگست 1947 کو پاکستان حاصل بھی کر لیا اور آج ہم مکمل طور پر آزاد ہیں اور پاکستان بننے کے بعد ابتدائی مشکلات پر قابو بھی اسی دو قومی نظریہ کی طاقت سے پایا گیا اور 1948 اور 1965 کی جنگوں میں بھی پاکستانی قوم نے مسلم قومیت کے تصور سے ہی بھارت کی خوفناک عسکری طاقت کو بد ترین شکستیں دیں لیکن پھر دشمن نے محسوس کر لیا کہ اسے پاکستان پر حملہ کرنے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہی ہوں گے بلکہ پاکستان کی نظریاتی اساس سے پاکستانیوں کو دور کر کے وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہو سکتے ہیں بس پھر وہ دن اور آج کا دن دشمن مسلسل ہماری نظریاتی اساس کو کمزور کر کے ہمیں اسلام سے دور کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہے اور بظاہر دشمن اس میں کامیاب بھی نظر آتا ہے کیونکہ ہم نے اپنا آدھا ملک پاکستان 1971 میں کھو دیا جس پر بھارتی وزیر اعظم نے کھل کر کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے اس کے بعد میں کبھی ہمارے مہاجر بھائیوں کو پاکستان کے خلاف ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے ' کبھی سندھی قوم پرستی کے نام پر تقسیم کی کوشش' کبھی بلوچی یا پٹھان یا پنجابی کے نام پر تقسیم کی کوششیں کی جاتی ہیں اور کبھی مذہبی فرقہ پرستی کی بنیاد پر پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے دشمن کھیل کھیلتا ہے لیکن قارئین گرامی ہمیں یہ بات اپنی نوجوان نسل کو بتانا چاہئے کہ یہ مسلم قومیت کا نظریہ ہی تھا جس نے ہندوستان کے مختلف خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا تھا اور ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک واضح نصب العین بھی کلمہ توحید کی بنیاد پر جداگانہ قومیت کے تصور نے ہی دیا تھا اور بلا شک و شبہ کلمہ توحید کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کی وجہ سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کی ایک تاریخ ساز فضا پیدا ہو گئی تھی اور ان کی قوت عمل میں بے پناہ اضافہ بھی اسلام نے ہی پیدا کر دیا تھا اور اسلام کی وجہ سے ہی تحریک پاکستان کے لئے ان علاقوں کے مسلمانوں نے بھی تاریخی قربانیاں دیں جنہیں یہ پتہ تھا کہ انکے علاقے کبھی بھی پاکستان کا حصہ نہی بن سکیں گے
قارئین گرامی پاکستان میں 23 مارچ کے حوالے سے قومی تعطیل بھی کرتے ہیں ' مختلف پریڈز بھی کرتے ہیں ' مختلف قومی ایوارڈز بھی تقسیم کرتے ہیں اور مختلف تقریبات بھی کرتے ہیں لیکن ایک کام ہم بہت کم کرتے ہیں جس کے کرنے کی ضرورت ان سب چیزوں سے زیادہ ہے اور اسی حوالے سے جس طرع چوہدری رحمت علی نے تحریک پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ اب یا کبھی نہی میں ایک بار پھر یہ کہتا ہوں کہ پاکستان کو قائم رکھنے ' کلمہ توحید کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا ثبوت دینے کے لئے ہمیں ایک بار پھر اب یا کبھی نہی والے جذبے کی ضرورت ہے کیونکہ آج ہم پنجابی بھی ہیں ' سندھی بھی ہیں ' بلوچی بھی ہیں ' پٹھان بھی ہیں ' کشمیری بھی ہیں بس نہی ہیں تو سچے پاکستانی نہی ہیں شاید اس سلسلہ میں قارئین کی توجہ کے لئے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ جہاں دشمن حملہ آور ہے
قارئین گرامی مثال کے طور پر پاکستان میں پاکستان کی دفاعی افواج وہ ادارہ ہیں جو پاکستان کے تصور کو واضح کرتی ہیں کہ افواج پاکستان میں پاکستان کے تمام جغرافیائی وحدتون کے لوگ ملازمت کرتے ہیں یعنی ایک ہی بیرک میں ہر علاقے کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں جو پاکستانیت کی مظہر ہے لیکن ہمارے دشمن نے صرف اسی وجہ سے ایک پوری مہم پاکستان کی دفاعی افواج کے خلاف عوام میں نفرتیں پیدا کرنے کے لئے شروع کی ہوئی ہے تاکہ ایسے ادارے جو کلمہ توحید کی بنیاد پر ایک قوم ہمیں دکھائی دیتے ہیں وہ بھی تباہ ہو جائیں اسی طرع کی ایک اور مثال قائداعظم یونیورسٹی ہے جہاں پاکستان کے تمام علاقوں کے طلبہ موجود ہیں لیکن دشمن نے قائداعظم یونیورسٹی میں بھی لسانی کونسلیں بنا کر پاکستانیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے والے اس ادارے کو آپس میں نفرتوں کا ذریعہ بنا دیا ہے بات لمبی ہوتی چلی جائے گی اس لئے واپس آتے ہیں اس بات پر کہ دشمن کا تو حق ہے کہ وہ ہماری نظریاتی اساس کو کمزور کرے لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی نظریاتی اساس کو پھر سے مضبوط کریں اور اپنی نوجوان نسل کو یہ باور کروائیں کہ ہم نے پاکستان دو قومی نظریہ اور کلمہ توحید کی بنیاد پر حاصل کیا ہے اور کلمہ توحید ہی ایسی طاقت ہے جو پاکستان میں مختلف رنگوں ' نسلوں اور علاقوں کے لوگوں کو ایک قوم بناتا بھی ہے اور قائم بھی رکھتا ہے اور یہی ہمیں جوڑے رکھنے والی طاقت ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ازلی دشمن نے ہمیں کافی حد تک ہمیں جوڑے رکھنے والی اس طاقت سے دور کر دیا ہے اور آج ہم کبھی پنجابی ہونے پر فخر کرتے ہیں تو کبھی سندھی بلوچی کشمیری یا پٹھان ہونے پر اور کبھی سنی یا شیعہ ہونے پر بے شک ہم ان پر فخر کریں لیکن ہمیں اس سے زیادہ فخر اس بات پر کرنا چاہئے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کے طور پر ہم قابل فخر پاکستانی ہیں اور ہمیں تمام اہل پاکستان کو اپنا بھائی نہ صرف سمجھنا چاہئے بلکہ ان کے ساتھ بھائیوں والا رویہ بھی رکھنا چاہئے
قارئین گرامی اب جنگیں بھی باقاعدہ حملہ کر کے نہی بلکہ نظریے پر حملہ کر کے کی جاتی ہیں کیونکہ جو قوم اپنی نظریاتی اساس کا تحفظ نہ کر سکے پھر وہ قوم زیادہ دیر تک اپنی سرحدوں کا تحفظ بھی نہی کر سکتی تو آئیے آج قرارداد پاکستان کے اہم ترین دن کے حوالے سے ہم یہ عہد کریں کہ ہم کلمہ توحید کی بنیاد پر قوم ہونے کے تصور کو نہ صرف زندہ رکھین گے بلکہ اسے اور مضبوط کریں گے قارئین گرامی اس کے لئے ہمیں اپنے بچوں میں پاکستان سے محبت کے ساتھ ساتھ اسلام سے محبت پیدا کرنا ہو گی اور زندہ رکھنا ہو گی