پوائنٹ آف ویو
تہمینہ شیر درانی
23 مارچ 1940ءکے دن منٹو پارک جسے (بعد میں) اقبال پارک کا نام دیا گیا کی گراو¿نڈ میں مسلم لیگ کے منعقدہ اجلاس میں مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں واضح طور پر کہا کہ !برصغیر کا مسئل فرقہ ورانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ اگر برطانوی حکومت ہندوستان میں حقیقتاً امن چاہتی ہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ! ہندوستان کو تقسیم کر کے دو بڑی قوموں کے لیے جداگانہ وطن بنا دیئے جائیں۔ اس قرارداد کو "قرار داد لاہور" کا نام دیا گیا جسے غیر ملکی اخبارات نے قرارداد پاکستان کا نام دیا، جس پر قائد اعظم نے فرمایا! اگر ہمارے دشمن ہمیں چڑانے کے لیے اس نام کو استعمال کرتے ہیں تو ہم چڑیں گے نہیں، بلکہ اب تو بھی اسے اسی نام سے پکاریں گے۔
مطالبہ پاکستان کے بعد 1940 سے لے کر 1947ءتک مسلمانوں نے منزل کے حصول کے لیے اپنا تن ، من اور دھن داو¿ پر لگا دیا۔ انہوں نے آزادی کے دیپ اپنے لہو سے روشن کیے۔ اور پھر بالآخر انتھک محنت، لازوال جدوجہد نے انہیں وہ دن دیکھنا نصیب کیا، جس کی خواہش، امنگ اور ارمان ہر مسلمان کا تھا۔ منزل کے حصول میں کامیابی کے بعد رفتہ رفتہ وہ مقصد وہ عزائم جس کی بدولت سرزمین پاک کا حصول وجود میں آیا تھا۔ اور مسلمانوں نے ایک طویل جدو جہد کی تھی۔ وہ مقصد وہ جذبہ وہ عزائم جس کی بدولت الگ وطن کا حصول ممکن ہوا تھا وہ سب بھول گئے۔ اور پھر وہ سب برائیاں عود کر آنے لگیں جو کہ ! کسی بھی معاشرے کی تباہی کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ درد مند، محب وطن مسلمان دن بدن اپنے بھائیوں کے مقاصد پاکستان کے برعکس منفی اور مفاد پرست رویوں کی بدولت صورتحال کی ابتری کو دیکھتے ہوئے پل پل دکھی ہوتے رہے بے بسی سے پڑپتے رہے۔
آج ہم وہ سب بھول چکے ہیں جو دعائیں اور فریادیں ہمارے بڑوں نے اللہ تعالیٰ سے کیں تھیں۔ وہ مقاصد ، وہ عظیم معاشرہ جس کا خواب ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا۔ اور جسے پانے کے لیے لاکھوں قربانیاں دیں تھیں۔ہمیں کیوں نہیں نظرآرہا؟ ہمارے ضمیر کیوں سو گئےہیں یا ہم نے ویسےہی انہیں مار دیاہے۔ بلاشبہ مسلمان ایک عظیم قوم ہیں۔ پھر ہم یہ سب کیوں بھول گئے ہیں۔ آج جبکہ ہم در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ تو اس کی وجہ ہے تو صرف یہ کہ! اللہ کے نام پر ستائیسویں رمضان المبارک کو رب کائنات کی طرف سے دئیے گئے اس تحفہ خداوندی کے حصول کے لیے ہم نے جو وعدے کیے تھے۔ وہ سب بھول کر نفسا نفسی کی دوڑ میں ہر جائز ناجائز طریقوں سے مفادات کے حصول کی خاطر رواں دواں ہیں۔ ضرورت ہے تو ہمیں اپنے احتساب کی ، پھر اپنی اصلاح کی تب کہیں جا کر دنیا کے سامنے ہم ایک بے مثال قوم، عظیم معاشرے کی تشکیل کے ساتھ اس سلطنت کی حیثیت سے ابھریں گے جس کے خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھے تھے۔ ضرورت ہے تو قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد کے حصول سے آگاہی کی طرف توجہ دینے کی اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ! دین محمد?کے پروانوں نے جب بھی رب کائنات اور ہادی کون و مکاں سے وفا نبھاتے ہوئے جب بھی کسی مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی کامیابیاں اور کامرانیاں ان کا مقدر بنیں اور جب بھی دین حق کے ماننے والوں نے اللہ اور اس کے رسول کے فرامین سے منہ موڑا ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنی۔
یہی وجہ ہےکہ!آج جب رمضان المبارک کا مبارک مہینہ ہمارے سروں پہ سایہ فگن ہے تو ہم مسلمان جہاں دل کرتا ہے بے حسی اور بے ایمانی میں سب سے آگے جارہے ہیں۔ روز مرہ استعمال کی اشیاءہی کو لے لیں جس کا جو جی کرتا ہے قیمتوں میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ جس سے غریب عوام بے سکونی اور پریشانی میں مبتلا ہیں اگرچہ محترمہ مریم نواز صاحبہ جس سے پنجاب کی وزیراعلٰی بنی ہیں ان کی کارکردگی شاندار ہے۔ پرائز کنڑول کرنے میں سستے رمضان بازاروں میں قیمتوں میں مناسب کمی میں کامیاب مصروف ہیں۔ مجھے محترمہ مریم نواز صاحبہ کے ساتھ کئی سال کام کرنے کا موقع ملا ہے اس لیے معلوم ہے ان کے دل میں غریب کا درد موجود ہے اس لیے قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ذاتی دلچسپی کے ساتھ ساتھ سختی کی بھی ضرورت ہے۔