23مارچ 1940ءپاکستان کا تاریخی دن ہے جسے یوم جمہوریہ پاکستان کہنا مناسب ہوگا- آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس مینار پاکستان لاہور میں ہوا- جس میں ہندوستان بھر سے مسلمانوں نے شرکت کی- اس تاریخی اجلاس میں مسلمانوں کی آزاد ریاست کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی جسے پہلے قرارداد لاہور اور بعد میں قرارداد پاکستان کہا گیا - قائد اعظم نے اس اجلاس میں تاریخی اور طویل خطاب کیا جس میں دو قومی نظریہ کے بارے آل انڈیا مسلم لیگ کے موقف کے بارے میں تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا- قائد اعظم نے دلائل دیے کہ برصغیر کے مسلمان ہر حوالے سے اور عالمی اصولوں کے مطابق علیحدہ قوم ہیں- اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوا تو بر صغیر کے مسلمان ہندو اکثریت کے غلبے اور تسلط کا شکار ہو جائیں گے اور مسلمانوں سمیت ہندوستان کی دوسری اقلیتیں ہمیشہ کے لیے اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہو جائیں گی- قائد اعظم نے اپنے خطاب میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کانگریس کے لیڈروں نے سیکولرازم اور لبرل ازم کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے- حقیقت میں وہ کٹڑ ہندو ہیں اور ہندو ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں- قائد اعظم کی یہ پیشگوئی درست ثابت ہوئی-
آج بھارت کے وزیراعظم مودی ہندوستان کو ہندو ریاست بنانے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں اور ہندوستان میں رہنے والی اقلیتیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں- قائد اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم اس لیے پاکستان حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم آزاد وطن میں روحانی سیاسی معاشی اور سماجی طور پر ترقی کر سکیں- اس خطاب کو 84 سال ہوچکے ہیں ہم ابھی تک قائد اعظم کے اس تاریخی خطاب کے مطابق ترقی نہیں کر سکے - 23 مارچ 1940ءکے اجلاس میں چار قرار دادیں منظور کی گئیں - ایک آزاد ریاست کے بارے میں، دوسری فلسطین کے بارے میں، تیسری اقلیتوں اور خواتین کے حقوق اور کردار کے بارے میں اور چوتھی قرارداد کے ذریعے آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور میں ترامیم کرکے مختلف مسلم لیگی عہدیداروں کے انتخابات کروائے گئے- جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم جماعت کے اندرونی انتخابات کو کتنی اہمیت دیتے تھے- آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈروں نے قائد اعظم کو مسلم لیگ کا تاحیات صدر منتخب کرنے کی تجویز دی۔ قائد اعظم نے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا اور مسلم لیگ کے پرائمری یونٹ ہر سال قائد اعظم کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرتے-
23 مارچ 1940ءکی قرارداد کے بعد جب پاکستان کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تو کانگریس کے حامیوں نے کہا کہ پاکستان ایک ناممکن خواب ہے- قائد اعظم نے جواب دیا کہ "ناممکن" کا لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں ہے- قائد اعظم نے صحافیوں سے کہا کہ آج اگر علامہ اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کیوں کہ ہم نے آج آزاد ریاست کے سلسلے میں قرار داد منظور کرکے اقبال کے اس خواب کی تعبیر کی ہے جو انہوں نے اپنے 1930ءکے خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کو دکھایا تھا - قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکنوں کی سیاسی تربیت بھی کرتے تھے- چنانچہ انہوں نے مسلم لیگ کے لیڈر بہادر یار جنگ سے 23 مارچ کانفرنس کے دوران اسلام اور جمہوریت کے موضوع پر ایک لیکچر بھی کرایا-
23 مارچ کو قائد اعظم نے انگریزی میں خطاب کیا- ایک چھابڑی فروش اس خطاب کے دوران تالیاں بجاتا رہا - ایک صحافی نے چھابڑی فروش سے کہا جب تم انگریزی نہیں جانتے تو تالیاں کیوں بجاتے رہے- چھابڑی فروش نے کہا میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میرا لیڈر جو کہتا ہے سچ کہتا ہے- افسوس آج عوام اور لیڈروں کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہو چکی ہے- لیڈر عوام کی نظروں میں اپنا وقار بحال رکھنے میں ناکام رہے ہیں- 23 مارچ 1940ءکے بعد آل انڈیا مسلم لیگ ہر سال 23 مارچ کو یوم جمہوریہ پاکستان کے طور پر مناتی رہی- 1956ئ کے آئین میں بھی پاکستان کو جمہوریہ قرار دیا گیا- 1958ءکے مارشل لاءکے بعد جنرل ایوب خان کے دور میں 23 مارچ کا دن یوم جمہوریہ پاکستان کی بجائے یوم پاکستان کے طور پر منایا جاتا رہا- بلاشک 23 مارچ یوم جمہوریہ پاکستان ہے جو جمہور کی جدوجہد اور قائد اعظم کی آئینی قانونی اور جمہوری قیادت اور کوششوں سے معرض وجود میں آیا - 14 اگست ہمارا یوم آزادی ہے جبکہ 23 مارچ یوم جمہوریہ ہے-23 مارچ 1940ءکی قرارداد میں پاکستان میں شامل ہونے والے صوبوں کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کو صوبائی خودمختاری دی جائے گی- پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ صوبوں کو سیکورٹی کے نام پرطویل عرصے تک صوبائی خودمختاری سے محروم رکھا گیا- اگر آزادی کے بعد مناسب وقت پر صوبوں کو خودمختاری دے دی جاتی تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا - 1940ءکا صوبائی خودمختاری کا وعدہ 2010ءمیں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے پورا کیا گیا - جس کا سہرا آصف علی زرداری کے سر ہے جو اس وقت پاکستان کے صدر تھے- انہوں نے 18 ویں ترمیم کے لیے سب پارلیمانی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کیا اور 18 ویں ترمیم اتفاق رائے سے منظور کی گئی-
23 مارچ کو یوم تجدیدِ عہد اور یوم احتساب کے طور پر منایا جانا چاہیے - پاکستان کی حکمران اشرافیہ سنجیدگی کے ساتھ اپنا احتساب کرے اور جائزہ لے کہ کیا ہم تحریک پاکستان کی روح کے مطابق پاکستان کی تشکیل کر سکے ہیں- ہمیں ان اسباب کا جائزہ لینا چاہیے جو ہماری ترقی اور خوشحالی میں حائل ہیں- جب تک ہم اپنی ریاست کی تشکیل تحریک پاکستان کے مقاصد کے مطابق نہیں کریں گے ہم زوال کا شکار رہیں گے اور آزادی کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا- پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو یوم جمہوریہ پاکستان جوش وخروش کے ساتھ منانا چاہیے -
قائد اعظم نے 26 مارچ 1948ءکو چٹاگانگ میں اپنے خطاب میں نظریہ پاکستان کے بارے میں فرمایا تھا -" آپ میرے اور لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں- جب آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی قطعی اساس معاشرتی انصاف اور اسلامی سوشلزم پر ہونی چاہیے جو مساوات اور انسانی اخوت پر زور دیتا ہے- اسی طرح جب آپ سب کے لیے مساوی مواقع کی تمنا کرتے ہیں تو آپ میرے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں- ترقی کے یہ اہداف پاکستان میں متنازع نہیں ہیں کیونکہ ہم نے اسی لیے تو پاکستان کا مطالبہ کیا اور جدوجہد کی تا کہ ہم آزادی کے ساتھ اپنے مزاج اور روایات کے مطابق اپنے معاملات چلا سکیں - انسانی اخوت مساوات اور بھائی چارہ ہمارے مذہب اور ثقافت کے بنیادی اصول ہیں- ہم نے پاکستان کی جدوجہد اس لیے کی کہ برصغیر ہندوستان میں ان انسانی حقوق کو خطرہ لاحق تھا -"