مارچ کے مہینے کو پاکستان کی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ 23 مارچ 1940 وہ دن ہے جب برصغیر میں پاکستان قائم کرنے کیلئے باقاعدہ تحریک شروع ہوئی اور اسی لئے اس دن کو اس مناسبت سے یوم پاکستان بھی کہتے ہیں۔
23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے مسلمانوں کےلئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اسکے بعد پاکستان کا حصول صرف سات سال کے عرصے میں پایہ تکمیل پہنچا۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجتماع ہوا جس کی صدارت قائداعظم نے کی، اس اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق کی پیش کردہ قرارداد منظور کی گئی جس میں برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس قرار داد کی منظوری مسلم لیگ کی مجلس شوری کے ساتھ ہندوستان کے تمام حصوں سے آئے ہوئے ایک لاکھ سے زائد افراد نے بھی دی۔کیوں کہ یہ قرار داد آج جس جگہ مینار پاکستان موجود ہے وہاں پیش کی گئی تھی تو اسی مناسبت سے اسے قرار داد لاہور کا نام دیا گیا لیکن بعد میں جب کانگرسی رہنماو¿ں نے طنزا اسے قرار داد پاکستان کا نام دیا تو یہ اسی نام سے موسوم ہو گئی۔
قرارداد پاکستان منظور ہونے کے بعد یہ قرارداد 1941 میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اسی کی بنیاد پر سات سال بعد یمارا پیارا ملک دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا۔اس تاریخی موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے اس اجلاس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے برصغیر پر قابض انگریزوں کو واضح پیغام دیا کہ ہندوستان کا مسئلہ فرقہ ورانہ نوعیت کا یا مقامی نوعیت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کو اسی لحاظ سے حل کرنا چاہیے کیونکہ جب تک برصغیر میں بسنے والی اکائیوں کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تو کوئی بھی قانون یا دستور اس برصغیر میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ کانگرس کا یہ نظریہ تھا کہ برصغیر میں صرف ایک ہی قوم بستی ہے اور وہ ہندو ہیں تو قائد اعظم نے کہا کہ لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن، اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے اس موقع پر کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ہندو اور مسلم دو علیحٰدہ قومیں ہیں جو اپنا منفرد مذہب، تہذیب و تمدن، فلسفہ ، معاشرتی و سیاسی نظام رکھتی ہیں۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہم مذہبی، روحانی، تہذیبی و سیاسی ، اقتصادی اور سماجی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہوں۔ اور ہندو مسلم دو پرامن ہمسایوں کی طرح رہیں۔ ہم ایسے کسی دستور کو برداشت نہیں کر سکتے جو مستقل اکثریت کو حاکم بنا دے۔ اس لئے اب سوائے اسکے کوئی چارہ نہیں کہ ہندوستان کی دو بڑی قومیں خود کو دو خودمختار مملکتوں میں تقسیم کر لیں۔قائداعظم نے قراردادِ پاکستان کو بنیاد بنا کر دو قومی نظریہ کے مطابق ملک کی تقسیم کا مطالبہ کیا۔دوسری طرف گاندھی،نہرو سمیت کانگرس کی تمام مرکزی قیادت کا موقف تھا کہ برصغیر میں صرف ایک ہی قوم بستی ہے اور وہ ہندوستانی قوم ہے لیکن قائداعظم محمد علی جناح نے دلائل کے ساتھ واضح کیا کہ برصغیر میں ایک قوم نہیں بلکہ دو قومیں بستی ہیں اور دوسری قوم مسلمانان ہندوستان ہیں اور قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے مخالفوں کو جواب دیا کہ پاکستان کی بنیاد تو اسی دن رکھ دی گئی تھی جب برصغیر میں مسلمانوں نے قدم رکھا اور پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔اس تمام پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہمارے آباﺅ اجداد نے بڑی مشکلوں، قربانیوں کے ساتھ یہ ملک حاصل کیا تھا اور کوئی پلیٹ میں سجا کر ہمیں یہ ملک نہیں دیا گیا تھا بلکہ اس کیلئے ایک طاقتور طبقے کے ساتھ ساتھ اس وقت کی سپر پاور برطانیہ کے ساتھ جدوجہد آزادی کی جنگ بھی لڑنی پڑی پھر کہیں جا کر یہ ملک ہمیں حاصل ہوا تھا۔قرار داد پاکستان کو چونکہ یوم پاکستان بھی کہتے ہیں اور یہ وہی دن ہے جس دن پاکستان کے حصول کا باقاعدہ آغاز ہوا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ صرف سات برس کے قلیل عرصے میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم نے نہ صرف پاکستان کا حصول ممکن بنایا بلکہ اس کیلئے ایک راہ بھی متعین کی کہ اس ملک پر قانون کون سا نافذ ہو گا اس ملک کا آئین کیا ہوا۔اور یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے بڑوں نے سات برس کی قلیل مدت میں یقین،اتحاد اور تنظیم کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک الگ ملک کا حصول ممکن بنایا تھا۔اب یہ ہمارا بھی بطور پاکستانی فرض ہے کہ ہم اس دن عہد کریں کہ اس ملک کی ترقی و کامرانی کیلئے ہم سے جو ممکن ہو سکا ہم کریں گے اور اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کریں گے اور یہی یوم پاکستان کا سبق ہے کہ ہمارے بڑوں نے اگر قلیل مدت میں انگریزوں اور ہندوو¿ں کے پنجے سے اگر یہ ملک حاصل کیا تھا تو یقینا ہم بھی اگر تہیہ کر لیں تو ملک اس وقت جن مشکل حالات سے نبرد آزما ہے تو ان حالات سے نکلنا ہمارے لئے مشکل امر نہیں ہو گا، ان شا اللہ