جذبہ حب الوطنی کی خوشبو سے مہکتی نوائے وقت کی 84ویں سالگرہ

   نوائے وقت آٹھ دہائیوں سے قوم کا ترجمان            محمد شعیب مرزا
23 مارچ 1940ء وہ تاریخ ساز دن ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی منزل کا تعین کر لیا۔ قرارداد لاہور جسے بعد میں قراداد پاکستان کا نام دیا گیا اتفاق رائے سے منظور کی گئی۔ ہندو پریس مسلمانوں کی تحریک آزادی کے خلاف مسلسل زہریلا پروپیگنڈا کر رہا تھا جس کا توڑ ضروری تھا۔ قائداعظم کی دوربیں نگاہوں نے اس کیلئے حمید نظامی کا انتخاب کیا اور مسلمانوں کی صحیح ترجمانی کیلئے ایک اخبار کی ضرورت پر زور دیا۔ چنانچہ قائداعظم کی ہدایت پر حمید نظامی نے 23 مارچ 1940ء کو پندرہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ کا اجراء کیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی اسے ہفت روزہ کر دیا گیا۔ قرارداد پاکستان کی منظوری اور ’’نوائے وقت‘‘ کا اجراء تحریک پاکستان میں تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ قائداعظم نے ’’نوائے وقت‘‘ کی صداقت اور خدمات کے بارے اپنے دستِ مبارک سے لکھ کر حوصلہ افزاء خیالات کا اظہار کیا اور تحسین کی۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے ذریعے مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچا۔ ہندو پریس جب بھی غلط پروپیگنڈا کرتا ’’نوائے وقت‘‘ اس کا فوری، مدلل اور مؤثر جواب دیتا۔ ’’نوائے وقت‘‘ واحد اخبار تھا جس نے سکندر جناح پیکٹ کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے ایک مدلل مضمون شائع کر کے قائداعظم کے مؤقف کی تائید کی۔ قائداعظم کے حکم سے شاہنواز خان ممدوٹ صدر صوبہ مسلم لیگ نے اس مضمون کی 25 ہزار کاپیاں کتابی صورت میں شائع کر کے تقسیم کروائیں۔
’’نوائے وقت‘‘ صرف ایک اخبار ہی نہیں ایک تحریک بھی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی حصول آزادی کی جدوجہد کی تاریخ بھی ہے۔ اس کے صفحات پر تحریک پاکستان کی مکمل تاریخ نقش ہے۔ پاکستان کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی، انگریز کے ظلم و ستم، ہندوؤں کی عیاریوں و مکاریوں اور اپنوں کی سازشوں کا مکمل ریکارڈ اس میں محفوظ ہے۔ قیام پاکستان میں ’’نوائے وقت‘‘ کے کردار کو نظرانداز یا فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ قائداعظم نے ایک موقع پر فرمایا تھا ’’قلم زبردست طاقت ہے آپ لوگ جس کے امین ہیں۔ اس قوت سے صحیح کام لیں۔ خوف اور لالچ سے بے نیاز ہو کر قومی جذبات کی ترجمانی کریں کہ آپ قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ خود گمراہ ہو جائیں تو قلم کی قوت ہی قوم کو گمراہ کر دے گی۔ اپنے اندر ایسی پختگی پیدا کریں کہ آپ کے مخالف بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ اس شخص کو کسی قیمت پر خریدا نہیں جا سکتا۔‘‘ 
حمید نظامی اور مجید نظامی نے اپنی ساری صحافت اور زندگی قائداعظم کے اسی قول یا ہدایت کے مطابق گزاری۔ نہ بکے نہ جھکے۔ تب اخبارات کے زیادہ تر مالکان ہندو اور سکھ تھے۔ انہوں نے مسلمانوں، تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف بھرپور مہم چلائی لیکن ’’نوائے وقت‘‘ نے ان کی اس میڈیا وار کا زبردست مقابلہ کیا۔ حمید نظامی نے ایم ایس ایف اور ’’نوائے وقت‘‘ کے ذریعے مسلم لیگ کی ترجمانی کی۔ وہ غریب شہر کے نام سے سخن ہائے گفتنی لکھتے تھے۔ ’’جاتی کیا سوچتی ہے‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ کے نام سے کالم نوائے وقت کے اندرونی صفحات پر شائع ہوتے تھے۔ یہ کالم انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے مختلف اخبارات میں شائع ہوتے جو ایک اعزاز ہے۔ حمید نظامی کی مجموعی خدمات کے پیش نظر قائداعظم محمد علی جناح نے انہیں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ میں شمولیت کی دعوت دی تو انہوں نے نہایت ادب سے معذرت کی اور کہا کہ سر میں صرف صحافت کے میدان میں رہنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلم لیگ کے عہدوں کے لئے بہت سے امیدوار موجود ہیں لیکن صحافت میں ان کی زیادہ ضرورت ہے اور وہ مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے لئے ’’نوائے وقت‘‘ کے ذریعے بہتر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے محاذ پر ڈٹے رہے۔
مسلم لیگ کی جدوجہد میں تیزی آنے کے بعد قائداعظم نے حمید نظامی کو بلا کر کہا کہ مسلم لیگ کی ترجمانی کے لئے اب ایک روزنامہ اخبار کی ضرورت ہے اس لیے ’’نوائے وقت‘‘ کو روزنامہ کر دیا جائے۔ لہٰذا انہوں نے اس حکم کی فوری تعمیل کرتے ہوئے 22 جولائی 1944ء کو ’’نوائے وقت‘‘ کو روزنامہ کر دیا۔ 1945ء میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے سلسلے میں بھی ’’نوائے وقت‘‘ نے اہم کردار ا دا کیا اور مسلم لیگ کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے مہم چلائی جس کے نتیجے میں انہیں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے قائداعظم مسلم لیگ اور دو قومی نظریے کی بے باک ترجمانی بھی کی اور مخالف اخباروں کی تحریروں اور پروپیگنڈے کا جواب بھی دیا۔ جوں جوں حصولِ پاکستان کی منزل قریب آ رہی تھی مخالفتوں اور سازشوں میں بھی تیزی آ گئی تھی۔ بیرونی ہی نہیں اندرونی سازشیں بھی زور پکڑ رہی تھیں۔ فسادات شروع ہو گئے، ان تمام مشکلات کے باوجود ’’نوائے وقت‘‘ نے اپنا مشن جاری رکھا۔ 
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، قائداعظم، مسلم لیگ اور ’’نوائے وقت‘‘ کی کوششیں رنگ لائیں اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک آزاد مسلم ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ انہوں نے اپنی بیماری کو چھپائے رکھا تھا تاکہ مسلمانوں کا عزم جواں رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے اس موقع پر اپنے اداریے میں قوم کو صبر کی تلقین اور قائداعظم کے افکار پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد مفاد پرستوں نے قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔
’’نوائے وقت‘‘ نے اس موقع پر بھی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز گورنر اور دیگر اہم عہدوں پر موجود انگریز افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ جمہوریت کے علم بردار ’’نوائے وقت‘‘ نے جبر کو ہدفِ تنقید بنائے رکھا۔ اس مردِ قلندر نے ترغیبات، آمریت، جبر کسی کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور جبر کو صبر سے برداشت کرتے ہوئے وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہو گئے اور آخر 25 فروری 1962ء کواپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ مرتے دم تک انہوں نے ’’نوائے وقت‘‘ کی پالیسی کو قائداعظم کے افکاروہدایات کے مطابق رکھا۔
حمید نظامی کی علالت اور بگڑتی ہوئی حالت کے پیشِ نظر آغا شورش کاشمیری نے فون کر کے مجید نظامی کو لندن سے بلوا لیا تھا۔ حمید نظامی نے بسترِ علالت پر مجید نظامی کو اپنے سامنے پایا تو کہا ’’تُم آ گئے‘‘ نظامی صاحب نے جواب دیا کہ ’’جی ہاں آگیا ہوں۔‘‘ تو حمید نظامی نے اطمینان سے آنکھیں بند کر لیں کہ اب ’’نوائے وقت‘‘ کا وارث آ گیا ہے۔ 25 فروری کو حمید نظامی کا انتقال ہوا۔ مجید نظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ کی اشاعت میں ایک دن کا تعطل بھی نہ آنے دیا اور 26 فروری کا اخبار اپنے بھائی کی میت پر رکھ کر گویا ان کو یقین دلایا کہ ان کا مشن جاری رہے گا۔
مجید نظامی لندن سے ’’نوائے وقت‘‘ کیلئے ڈائری بھجوایا کرتے تھے، اپنے بھائی کی طرح جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا ہُنر وہ بھی جانتے تھے۔ لہٰذا وہ بھی اس محاذ پر ڈٹ گئے۔ 2 جنوری 1965ء کے عام انتخابات میں ایوب خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح مدِمقابل تھے۔ ایوب خان نے انتخابات میں دھاندلی کے لئے تمام سرکاری مشینری استعمال کی۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے تمام تر دباؤ کے باوجود مادر ملت کی حمایت کی لیکن دھاندلی سے مادر ملت کو ہروا دیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کے خطاب سے نوازا جانا مجید نظامی ہی کا تاریخی اعلان تھا۔ وہ جمہوریت کو ہی پاکستان کے مسائل کا حل سمجھتے تھے۔ جب تمام صحافی مصلحت اندیش رہے نظامی صاحب عمر بھر کھل کر اپنی بات کرتے تھے،جبکہ آج ان کی بیٹی محترمہ رمیزہ نظامی نوائے وقت گروپ کی قیادت کرتے ہوئے مملکت کی اساس نظریہ پاکستان اور اس کی فکری آبیاری کیلئے برابر مصروف عمل چل آ رہی ہیں۔مجید نظامی مرحوم کی جرأت رندانہ  کے حوالے سے کئی واقعات مشہور ہیں۔ بہت سے واقعات مجید نظامی نے اپنی ادارت کے پچاس سال پورے ہونے پر منعقد ہونے والی تقریب میں اپنے مخصوص انداز اور مسکراہٹ کے ساتھ بیان کیے۔ ان واقعات کے کئی عینی شاہد بھی موجود ہیں۔
 یہاں چند واقعات پیشِ نذر ہیں۔
٭… حق گوئی و بے باکی:
٭…میرا اشارہ نوائے وقت کی طرف نہیں تھا: ایوب خان
کراچی کے سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں ایڈیٹروں کے اجلاس میں صدر ایوب خاں نے جب تمام مدیروں کو ڈانٹ پلائی اور کہا’’آپ کو شرم آنی چاہیے اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘۔ اس پر بعض اخبارات کے ایڈیٹروں نے واقعی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا۔ لیکن نوائے وقت کے نوجوان ایڈیٹر مجید نظامی نے ایوب خان سے کہا۔’’ جان کی امان ہو تو کچھ عرض کروں‘‘۔ جس پر ایوب خان نے کہا۔’’ جان کی امان دی جاتی ہے‘‘۔ اس پر مجید نظامی نے کہا’’جناب والا میں نے اپنے گریبان میں جھانکا ہے مجھے تو وہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جس پر شرم آئے ۔بلکہ مجھے تو احساس فخر ہوا ہے میں اپنا فرض دیانتداری سے پورا کر رہا ہوں‘‘۔ اس پر ایوب خان نے کہا ۔’’میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا‘‘۔ مجید نظامی نے کہا۔’’ آپ کا اشارہ میری طرف نہیں تھا تو آپ کو وضاحت کرنی چاہیے تھی‘‘۔
٭٭٭٭
٭…آپ کہیں تو اشتہارات کی بارش کر دوں، بھٹو کی مجید نظامی کو پیشکش
 ذوالفقار علی بھٹوجب مرکزی وزیر تھے ایک دن فون کرکے انہوں نے حمید نظامی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور ملاقات کے لیے فلیٹی ہوٹل بلایا۔ حمید نظامی نے جواب دیا۔ اس وقت وہ دوستوں میں مصروف ہیں۔ بھٹو نے خود حاضر ہونے کے لیے کہا، حمید نظامی نے اپنی فراغت کا وقت بتا دیا یوں بھٹو نے حمید نظامی سے ملاقات کی۔
 ایوب خان کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو کو کھڑا ہونے کا حوصلہ مجید نظامی نے دیا مگر ایوب خان کے دور میں نوائے وقت کی پناہ لینے والے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں نوائے وقت اور مجید نظامی کے لیے سب سے زیادہ مشکلات پیدا کیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نوائے وقت اور مجید نظامی سے ہتھیار ڈلوانے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے ایک فائل پر لکھا’’مجھے سمجھ نہیں آتی، اس شخص کو کیسے کنٹرول کیا جائے‘‘۔ آخر بھٹو صاحب نے خود مجید نظامی سے ملاقات کی۔ بھٹو نے کہا آپ کہیں تو اشتہارات کی بارش کر دوں۔
٭٭٭٭
٭… نواب آف کالا باغ
 نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے مجید نظامی کو اپنی بڑی بڑی مونچھوں کی کہانی سناتے ہوئے بتایا’’ میں اعوان ہوں، اپنے علاقے کے نیازی پٹھانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے شکل صورت مضبوط رکھنی پڑتی ہے۔ نواب آف کالا باغ جب مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ ان کی مجید نظامی سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ حمید نظامی کے انتقال پر نواب آف کالا باغ تعزیت کے 16 ٹمپل روڈ پر مجید نظامی کو ملنے آئے۔ وہ مجید نظامی سے ’’سرسر‘‘ کہہ کر بات کر رہے تھے۔ کہنے لگے مجید نظامی صاحب میں آپ کو ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے اوپر خدا ہے۔ نیچے ایوب خان ہے۔ وہ اگر کہے کہ نوائے وقت بند کر دو تو میں ایک لمحہ بھی نہیں سوچوں گا اور بند کر دوں گا۔ پھر انہوں نے میں کہا’’سر اگر آپ مرد ہیں تو اس پالیسی کو جاری رکھیں جو آپ کے بھائی نے چھوڑی ہے‘‘۔
 جس پر مجید نظامی نے کیا جواب دیا۔ ’’نواب صاحب آپ فکر نہ کریں آپ مجھے مرد ہی پائیں گے۔‘‘
٭…اب تو قابو آگئے ہو
 1970 ء میںجنرل یحییٰ خان کی ا یڈیٹروں کے ساتھ ملاقات میں تلخ سوال جواب کے بعد اگلی مرتبہ آپ 23 مارچ کو ملنے والا ستارہ پاکستان کا اعزازوصول کرنے بھی نہ گئے۔ کچھ عرصہ بعد یحییٰ خان نے مدیروں کو راولپنڈی میں بلایا تمام ایڈیٹرز لان میں بیٹھے تھے۔ یحییٰ خان کے پریس آفیسر قاضی سعید نے مجید نظامی سے کہا’’آپ کو صدر یاد کر رہے ہیں۔‘‘ جب مجید نظامی اندر گئے تو یحییٰ خان نے میز کی دراز سے ستارہ پاکستان نکالا اور مجید نظامی کے گلے میں ڈال دیا اور کہا’’بچو اب تو قابو آگئے ہو۔‘‘

ای پیپر دی نیشن