ایک فلسفی نے ایک کہانی لکھی تھی وہ کہانی کچھ یوں تھی کہ کوئی دو ملین سال قبل افریقہ کے گھاس کے میدانوں میں ایک چھوٹے قد سے انسان نے جو سیدھا کھڑا ہو سکتا تھا اور جس کا سر حیوانوں کی طرح جھکا ہونے کی بجائے کندھوں کے اوپر اٹھا ہوا تھا ایسے انسان نے زمین پر قدم رکھا اس انسان کے پیچھے پانچ ملین سال اس سے بھی زیادہ کا ارتقائی پروسس تھا اس پروسس کے دوران اس میں انقلابی تبدیلیاں آئیں اوراس کے بھیجے کا سائز بھی بڑا ہوتا گیا ہمیں پانچ ملین نہ سہی مگر چونسٹھ برس کا ارتقائی پروسس تو ملا ہے اور پھرہم نے کون سا افریقہ کے گھاس کے میدانوں سے سر اٹھایا تھا ہمارے قائد بھی تو ہمیشہ سے سر بلند تھے مگر بعض بیانات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نہ تو ہمارا ارتقائی پروسس ہوا ہے اور نہ ہی ہمارے بھیجے یعنی دماغ کا سائیز بڑا ہوا ہے۔ حضرت علیؓ کا ارشاد گرامی ہے کہ کلام کرو تاکہ تمہاری شناخت ہو سکے۔ وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے اپنی خوب شناخت کروائی اور کہا .... ”کالا باغ ڈیم نہیںبن سکتا.... پہلے ملک توڑنے کا شوق تو پورا کرلیں“ انہوں نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا دراصل انسان کی زبان اور زبان سے ادا کئے گئے الفاظ کا تعلق اس کی سوچ اور لاشعور میں چھپے ہوئے جذبات واحساسات سے ہوتا ہے اور یہ زبان ہی ہوتی ہے کہ جس سے انسان اپنی شناخت بھی کرواتا ہے اور دنیا کی تاریخ میںبھی اس کے الفاظ اسکے \\\"Sense Impression\\\" کو واضع کرتے ہیں۔ آجکل ہمارے دشمن غیر مستحکم پاکستان کی بات کرتے ہیں اور اگر ہم میں سے کوئی خود پاکستان ٹوٹنے کی بات کر ڈالے تو اس Sense impression کو کیا کیا جائے گا۔ ایک صورتحال ایسی ہے کہ جو ہم سب جانتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بھارت تمام پاکستان دریا¶ں پر جو کشمیر سے آئے ہیں بند باندھ رہا ہے اور اس کے ناپاک منصوبوں میں بگلیہار‘ کشن کنگا‘ وولربراج اورحتی کہ دریائے کابل پر بھی ڈیم بنانے کے منصوبے شامل ہیں تو ہم میں سے کون ہے ؟ جو دشمن کی خواہشات کے احترام میں نکلے گا جبکہ اس وقت معاشی ترقی کی طرف بڑھنے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لئے نئے ڈیم بنانا اشد ضروری ہو چکا ہے اور اس مقصد کے لیے کالا باغ ڈیم ‘ بھاشا ڈیم کے علاوہ چھوٹے ڈیم بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ پچھلے دنوں ایک افواہ پھیلا دی گئی تھی کہ کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ خیبر پی کے کے ساتھ سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے کہا تھا کہ میں نوشہرہ کا ہوں اور انجینئر بھی ہوں اور یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اب کچھ نہیں ہوگا تو پھر کون ہیں کہ جو کبھی سندھ کے بنجر ہونے اور کبھی نوشہرہ کے ڈوب جانے کی بات پراصرار کرتے ہیں .... ہمیں اب ان باتوں سے ہٹ کر اپنے استحکام کے لیے انقلابی تبدیلیاں لانی پڑیں گی اور سوچنا پڑے گا کہ پاکستان ٹوٹنے کی بات تو خدانخواستہ ہمارے دشمن کرتے ہیں تو پھر اپنے ملک کے اندر وزیر ریلوے کی طرح وزیر ہونے کی تمام آسائشیں لے کر بھی ریلوے کا ستیاناس کرنے کے بعد خدانخواستہ پاکستان ٹوٹنے کے الفاظ کیسے ادا کرتے ہیں؟ پاکستان کا ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور بھی شعوری اور ارتقائی پروسس میں اتنا آگے ہے کہ دشمن کی چالوں کو خوب سمجھتا ہے اور ملک کی سلامتی کی خاطر قربانی دینے کا یہی عظیم جذبہ ہے کہ لوگ صبر کے ساتھ جیئے رہے ہیں اور مشکلات کے باوجود گھبرائے ہوئے نہیں ہیں اور اگر احتجاج کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے کہ جو چھوٹے قد کے ابھی ابھی سیدھے کھڑے ہونے کا طریقہ سیکھ رہے ہیں ۔ اور ان کے بھیجے کا سائیز بھی ابھی اور بڑا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان ٹوٹنے کا لفظ ادا کرنے کی جرات نہ کریں....