”نیشنل پاور“ کا فروغ.... وقت کا تقاضا

May 23, 2011

کرنل (ر) اکرام اللہ
وطن عزیز کو درپیش اندرونی وبیرونی چیلنجز کے پس منظر میں حکومت‘ پارلیمنٹ کے عوامی نمائندوں‘ قائدین اور دانشوروں اور سب سے آخر لیکن سب سے اہم پریس اور الیکٹرونک میڈیا کے محترم نمائندگان کی توجہ آج ایک ایسے اہم ترین موضوع کی طرف مبذول کرانے کی جسارت کر رہا ہوں جس کی طرف روز آزادی سے تادم تحریر وہ ترجیحی سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ جس کا وہ مستحق تھا اور جس کے مقاصد کا حصول دنیا کی کسی بھی قوم اور مملکت کی کامیابی وکامرانی کیلئے چابی کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ قیمتی موضوع بلکہ نسخہ کیمیا ہے ”قومی قوت“۔ جسے انگریزی میں National Power کہا جاتا ہے۔ اس کا فروغ اور پاسداری کسی قوم یا مملکت کی عالمی برادری میں عزت و ترقی اور وقار کے درجہ (Rating) کا گراف طے کرنے کا باعث بنتی ہے۔
اس سفر کا آغاز نیشنل پاور کی تعریف یعنی Defination اور ملکی قیادت اور عوام میں اس کے صحیح ادراک کے بغیر ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستانی قیادت اور پاکستانی قوم میں نیشنل پاور کے مختلف شعبہ ہائے زندگی اور پہلوﺅں کے مکمل احاطہ اور ادراک کا کوئی ثبوت یاروڈ میپ نظر نہیں آتا۔ سچ پوچھیں تو کسی کا اس میں قصور بھی نہیں ہے کیونکہ نہ یہ موضوع کسی کالج یا یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں بی اے پاس پارلیمنٹیرین سے قانون سازی کی امیدیں باندھنی چاہئیں (اگرچہ بعض کی ڈگریاں ہی مشکوک ہیں) جہاں تک گزشتہ 60 برس کی جمہوری اور غیر جمہوری وزارتوں کے سربراہوں کا تعلق ہے انہیں دیگر اہم قومی امور سلجھانے سے اتنی فرصت کہاں کہ نیشنل پاور کے خشک موضوع کی پیچیدگیوں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ جہاں تک مختلف وزیر اعظم یا صدر مملکت کی ذات گرامی کا تعلق ہے نیشنل پاور کا مطلب نہایت صاف اور سیدھا سادہ ہے۔ یعنی نیشنل کا مطلب قومی جیسے قومی مصالحہ‘ قومی کھیلیں اور قومی ہیروز وغیرہ وغیرہ اور پاور کا مطلب طاقت جو ظاہر ہے سب سے زیادہ حکومت کے پاس ہے اور اس کے بعد وردی والوں کے خواہ یہ وردی فوج کی ہو پولیس کی یا رینجرز کی۔ باقی تفصیلات وزیروں شزیروں کے طے کرنے والی ہیں اور باقی ماندہ صوبائی حکومتوں کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ جہاں ریاست کے امور میں ایسی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ ہو وہاں کل آبادی کے نصف سے زیادہ ان پڑھ طبقے کا کیا قصور اور بوگس یا جعلی ووٹر لسٹوں کے ذریعے منتخب ہونے والے پارلیمنٹیرین سے کیا شکوہ لیکن کوئی ہے جو اس شرمناک صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔
مغرب میں نیشنل پاور شعبہ تعلیم کا ایک اہم ایسا حصہ ہے جو پولیٹیکل سائنس‘ اقتصادیات سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مختلف شعبہ جات Statistics یعنی شماریات ایگریکلچر یعنی زراعت Mining and geology یعنی معدنیات افرادی قوت‘ واٹر مینجمنٹ اور انرجی کی پیداوار غرض کس کس کا ذکر کروں نیشنل پاور کا تصور ان سب شعبوں کے مکمل احاطہ کے بغیر ممکن نہیں۔ اس ضمن میں راقم نے بری‘ بحری اور فضائیہ کی اجتماعی دفاعی قوت کا ذکر جان بوجھ کر سب سے آخر میں کیا ہے کیونکہ دیگر شعبہ حیات میں اعلیٰ ترین کردار یعنی انفرادی قوت کا بہترین استعمال زمین‘ دریاﺅں اور سمندروں کے پانیوں‘ فضاﺅں کی رفتار‘ سورج کی شعاعوں سے انرجی کا حصول‘ سیاسی استحکام اقتصادی خوشحالی‘ انصاف کے حصول‘ احتساب کے نظام‘ اقلیتوں کی آزادی وخوشحالی سماجی نظام کا یہ ترازو کہ زکوٰة لینے والا ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ سب سے بڑھ کر قومی دولت کی منصفانہ تقسیم اور غریب اور امیر کے طرز حیات میں کم سے کم فاصہ اور آخر میں گاﺅں اور شہروں میں بسنے والوں کو برابر کی تمام سہولتیں۔ یہاں تک کہ کسی گاﺅں میں ایک بھی کچا مکان نظر نہ آئے اور بقول اقبالؒ کسی نوعیت کی بلیک اکانومی اور ذخیرہ اندوزی جس میں ناجائز جائیدادیں اور بنکوں میں ناجائز دولت ایسے جرم قرار دیئے جائیں جن کی سزا موت ہو۔ چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا اسی عبرت کی آئینہ دار کرتی ہے اور اسی نظریہ کی بناءپر اقبالؒ نے کیا خوب ارشاد فرمایا تھا
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
یہ سب کچھ اس لئے عرض کیا ہے کہ نیشنل پاور مذکورہ اہداف حاصل کئے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک ان اہداف کی طرف روڈ میپ میں تسلی بخش پیش رفت نظر نہ آئے تب تک مملکت کی افواج صرف اپنی پیشہ وارانہ اہلیت کے بل بوتے پر اکیلے دفاع وطن کے مقدس فریضے کو خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ سرانجام نہیں دے سکتیں ۔ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کے بعد سے جنگ کے تصورات یکسر بدل چکے ہیں۔ نیو کلیئر ہتھیاروں نے جنگ کے ڈاکٹرائین میں انقلابی تبدیلیاں داخل کر دی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پرانا نظام حرب پانی پت کی لڑائیوں کی طرح بوسیدہ ہو چکا ہے۔ ویتنام‘ گلف وار‘ عراق اور افغانستان کی تازہ ترین جنگ نے فوجی طاقت کا بھرم پاش پاش کر دیا ہے۔ مستقبل کی جنگ ٹوٹل وار یعنی فوجی قیادت کے عوامی طاقت کی بھرپور شرکت کے بغیر دشمن پر فتح کا حصول ممکن نہیں۔ عوامی طاقت صرف نعروں‘ ریلیوں اور بڑھکوں کا نام نہیں ہے۔ محض عوام کی انفرادی طاقت بھی بیشک وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہی کیوں نہ ہو اس وقت تک دشمن پر بجلی بن کر نہیں گر سکتی جب تک اس میں مختلف شعبہ حیات کے وہ تمام اجزاءجن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اپنی مجموعی طاقت کا مظاہرہ نہ کریں۔ ان میں دیگر اجزاءکے علاءسیاسی استحکام‘ خودانحصاری سو فیصد تعلیم اور اعلیٰ تعلیم جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی پی ایچ ڈی کا معیار دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہو بے داغ اور فوری انصاف ہر سطح پر میسر (صرف چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کی اعلیٰ کارکردگی کافی نہیں ہے) اور آخر میں ایک اندھا اور بے رحم ایسا احتساب کا نظام جس کی مثال رحمة للعالمین ﷺ نے پیش کی تھی کہ اگر حضرت فاطمہؓ خواتین جنت کی سردار بھی کسی جرم کی مرتکب ہوں گی تو ان کے ساتھ بھی ایک ریاست کے عام شہری کی طرح قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔
راقم ملتمس ہے کہ ارباب اقتدار اور پاکستان کی قومی قیادت کی دعویدار انتہای قابل احترام شخصیات‘ پاکستان کی ”نیشنل پاور“ کا ادراک کرتے ہوئے اس کے مقاصد کے حصول کی طرف توجہ فرمائیں۔ کیا یہ مملکت خدادادکیلئے لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ ہمارے دریا خشک اور ہمارے کھیت بنجر ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے باوجود پورے پاکستان میں بشمول کمشنر انڈس واٹر ٹریٹی ایک بھی ایسا ماہر نہیں ہے جس کے پاس واٹر مینجمنٹ کی پی ایچ ڈی کی ڈگری ہو جبکہ بھارت اور دیگر ممالک میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے ماہرین اپنی اپنی قوم کی اس شعبہ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں!
مزیدخبریں