دھاندلی، محاذ آرائی اور لوڈشیڈنگ

خدا خدا کر کے جمہوریت کی بکری نے الیکشن کا دودھ دیا ہی ہے تو پی ٹی آئی نے اس دودھ میں دھاندلی کے شور، احتجاج اور دھرنوں کی مینگنیاں ڈالنا شروع کر دیا ہے ۔ کچھ دوسری جماعتوں نے بھی دھاندلی کا الزام لگایا ہے لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صدا کے برابر ہے جبکہ پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے یعنی حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت تو واضح نظر آ رہی تھی لیکن عمران خان کی اس قدر بھرپور کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے کہ پی ٹی آئی مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن کا بھرپور کردارادا کرنے کی اہل ہوگئی ہے اور خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے کے قابل ہو گئی ہے....اصل میں عمران خان کو خواب دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ خواب میں انہوں نے خود کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان دیکھ لیا ہو گا لیکن جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ وزارت عظمیٰ اپنی ”ہنوز دلی دور است“ کے مصداق کافی دور ہے اور اپنا خواب چکنا چور ہونے پر انہوں نے دھاندلی دھاندلی کا واویلا مچانا شروع کر دیا۔ دوسری طرف عمران خان نے ایم کیو ایم کے ساتھ پھڈا ڈال لیا ہے اور سیدھے الطاف حسین پر زہرہ شاہد کے قتل کا الزام لگا دیا۔ یہ سیاسی ناپختگی ہے۔ اب انہیں اپنی پوزیشن کو سمجھنا چاہئے کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات بڑی اہمیت رکھتی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس وقت تصادم کا یہ خطرناک راستہ کیوں اختیار کیا ہے جبکہ ہر ذی شعور یہ جانتا ہے کہ پاکستان کے حالات خصوصاً کراچی کے حالات اس وقت اس قسم کی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف جو بھی کارروائی کرنا ہے قانون کے دائرے میں رہ کر اور سیاسی پختگی کے ساتھ کریں۔
ایک طرف یہ گرما گرمی ہے تو دوسری طرف موسم بھی شدید سے شدید تر گرم ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد بجلی کی اذیت ناک لوڈ شیڈنگ....آنے والی حکومت کے سامنے مسائل کا ایک انبار ہو گا....مسائل بھی چھوٹے موٹے نہیں....بلکہ دیوہیکل مسائل۔ جن سے نمٹنا جناتی قوت کا تقاضا کرتا ہے ۔میاں نواز شریف نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو گی۔ اگر وہ پہلے سو دنوں کے اندر لوڈ شیڈنگ میں کمی کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو لوگوں کی توقعات ان سے مزید بڑھ جائیں گی اور حقیقت یہ ہے کہ اب وہی پارٹی عوام میں مقبول اور زندہ رہے گی جو کام کر کے دکھائے گی۔ پیپلز پارٹی کی شکست سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ لوگ بھٹو پرست یا نواز شریف پرست نہیں بلکہ اپنے ملک اور قوم کے پرستار ہیں۔حالیہ انتخابات نے سندھ کارڈ، پنجاب کارڈ اور ہر قسم کے کارڈ کو مسترد کر دیا ہے عوام نے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے سنجیدگی سے کام کرنے والوں کو منتخب کیا ہے۔ اگرجمہوری عمل اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے تو آئندہ انتخابات تک ہمارے سیاسی حکمرانوں کے کردار اور تعلیمی قابلیت کے معیارات بھی قائم ہو جائیں گے اور کوئی ایرہ غیرہ نتھو خیرہ عوام پر حکمرانی کے لئے مسلط نہیں کیا جا سکے گا۔

ای پیپر دی نیشن