قومی ایجنڈا ہی قومی مفاد میں ہے

قومی انتخابات 2013ءجس انداز میں بھی ہوئے اور پھر جیسے تیسے ہوئے یہ انتخابات اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں۔ الیکشن کمشن آف پاکستان کا کردار پورے پاکستان میں واضح ہو چکا ہے ملکی اداروں کی نااہلی اور ان میں پائی جانے والی بدعنوانیاں کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ یہ کہنا کہ الیکشن کمشن آف پاکستان نے ان قومی انتخابات میں قومی فریضہ پوری دیانتداری اور شفافیت سے ادا کیا ہے سراسر غلط ہے یقیناً پاکستان کے مختلف پولنگ سٹیشنوں میں بے ضابطگیوں اور دھاندلیوں کے واقعات ہوئے ہیں ان میں انفرادی طور پر اور خود الیکشن کمشن آف پاکستان کے عملے کی ملی بھگت سے قوم کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلسل اس ضمن میں شواہد بھی پیش کئے جا رہے ہیں، کراچی کی حد تک اب یہ بات بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ وہاں ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور اے این پی کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنی سیاسی قوت کو منوا لیا ہے جبکہ اندرون سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اپنا وجود برقرار ضرور رکھے ہوئے ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وجود میں دھاندلی، مخصوص شخصیات کا اپنے روایتی حلقوں میں اثر و رسوخ اور جاگیر دارانہ دبدبہ بھی معاون ثابت ہوا ہے۔
وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کے مرحلے میں سیاسی جوڑ توڑ اور سیاسی اتحادوں کی شکل میں بیک ڈور ڈپلومیسی کا عمل اس وقت عروج پر ہے ۔ نئی آنے والی حکومت کو جن بے پناہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا ان میں قومی اداروں کی تشکیل نو اور ان میں اعلیٰ افسران سے لیکر نچلی سطح تک بدعنوانیوں کو بھی جنگی بنیادوں پر ختم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ملک اس وقت جن حساس حالات سے گزر رہا ہے اس وقت اب دھرنے اور احتجاج کی سیاست سے گریز کرنا چاہئے۔ قومی انتخابات کے نتائج کو اب قوم کڑوی گولی تصور کر کے نگل لے اور اپنے نئے مستقبل کے سفر پر گامزن ہو جائے۔ وفاق میں چونکہ اب میاں نواز شریف حکومت بنانے جا رہے ہیں صوبوں میں بھی باہمی مشاورت اور افہام و تفہیم سے صوبائی حکومتیں تشکیل پا جائیں گی لہٰذا موجودہ حالات میں متحدہ قومی موومنٹ کو کھلے دل سے کراچی میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے مینڈیٹ کو بھی صدق دل سے تسلیم کر لینا چاہئے۔ پاکستان تحریک انصاف ایک حقیقت ہے اور اسے اب کراچی سمیت پورے ملک میں عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف ایک ایسی پارٹی بن کر اُبھری ہے کہ یہ جن جگہوں پر ہاری ہے وہاں ہار کر بھی جیتی ہوئی پارٹی شمار ہوتی ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی قومی سطح پر تیسرے نمبر پر جا چکی ہے اور پاکستان تحریک انصاف بلاشبہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر ملک کے سیاسی منظرنامے پر نمودار ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم جو کہ ماضی میں کراچی کی حد تک اپنی اجاردہ داری قائم کئے ہوئے تھی اب وہاں اے این پی اور جماعت اسلامی سے بھی زیادہ پاکستان تحریک انصاف کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے یعنی یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب کراچی میں ایم کیو ایم کی ہم پلہ پارٹی پی ٹی آئی اے ہے ان حالات میں ایم کیو ایم کو سیاسی حقائق مدنظر رکھتے ہوئے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی وحدت اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
سیاسی پارٹیوں میں عسکری ونگ کسی صورت میں بھی نہیں ہونے چاہئیں اور ان پارٹیوں میں جرائم پیشہ عناصر اور مافیاز کا وجود ہر حال میں ختم ہونا چاہئے۔ قبضہ مافیا، بھتہ گروپ اور پرچی مافیا ہر قیمت پر ختم ہونے چاہئیں۔ سیاسی مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ جو کہ کراچی کی سیاست میں دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اسے روکنا ہو گا اور ان وارداتوںمیں ملوث خفیہ ہاتھوں اور سیاسی شخصیات کو بے نقاب بھی کرنا ہو گا۔ آنے والی نئی حکومت کو اس جانب خاص طور پر توجہ دینا ہو گی۔ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، عمران خان، الطاف حسین سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام دیگر سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور رہنماﺅں کو نئے پاکستان کی تشکیل اور قومی انتخابات کے بعد قومی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے سیاسی طرز عمل میں تبدیلی لاتے ہوئے مشترکہ طور پر قومی ایجنڈے پر متفق ہونا پڑے گا۔ قومی ایجنڈے پر متفق ہوئے بغیر پاکستان کی اندرونی اور غیر ملکی صورتحال کے پیش نظر جن گھمبیر چیلنجز کا سامنا ہے ان پر قابو پانا مشکل ہو گا ۔احتجاجی اور سیاسی مخالفت کی سیاست کو دفن کر کے قومی وحدت اور سالمیت کو ترجیح دینا اب وقت کی ضرورت ہے۔ سیاسی، سفارتی اور معاشی سطح پر قومی ایجنڈے کی تشکیل میں قومی اداروں کا عملی تعاون اور عسکری قیادت کا سیاسی قیادت کے ساتھ بھرپور تعاون پاکستان کو ایک نئے دور کی طرف لیکر جا سکتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ دیگر سیاسی گروپس جو کہ قومی انتخابات میں کامیابی کے بعد پارلیمنٹ میں آ رہے ہیں ان میں وہ قومی شخصیات جو کہ ملکی سیاست کے دھارے میں سرگرم عمل رہی ہیں وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی کوششیں نہیں کریں گی۔ ماضی میں کرپشن ملک کا نمبر ایک مسئلہ رہا ہے اور اسی طرح خاندانی اجارہ داری کا غلبہ بھی ملکی سیاست میں بے پناہ مسائل پیدا کر گیا ہے۔ میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر ملکی اداروں میں اعلیٰ سطح پر تقرریاں اداروں کی تباہی کا باعث بنی ہیں۔ وفاق میں مضبوط حکومت اور مضبوط اپوزیشن دونوں ہی مل کر ان قومی مسائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں تو پھر یقیناً پاکستانی معاشرے میں تبدیلی آئے گی۔ آج کا نوجوان پورے پاکستان میں تبدیلی کا خواہشمند ہے اور قوم کا ہر فرد ماضی کے فرسودہ نظام کی خرابیوں کا شکار ہو کر ناامیدی اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ ان حالات سے چھٹکارا دلانے کیلئے آنے والی نئی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کرنا ہوں گی۔اس کے لئے پوری قوم بڑی بے تابی سے میاں نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر دیکھنے متمنی ہے۔

ای پیپر دی نیشن