امن‘ سلامتی اورحکمرانی

May 23, 2015

سعید خاور… حرف درماں

اس سے قطع نظر کہ وہ حقیقت تھی یافسانہ ¾نائین الیون کا واقعہ دنیا کے امن کیلئے کئی خدشات چھوڑ گیا۔11ستمبر2001ءکونیویارک کی گلیوں میں بھڑکنے والی دہشتگردی کی پراسرارآگ پوری دنیا میں پھیل گئی ہے اور خاص طورپر پاکستان تو اس خوفناک آگ میںپوری طرح سے جھلس گیا ہے ۔القاعدہ سے منسوب اس دہشتگردی کے جواب میں امریکہ نے دنیا میں ایک ایسی چومکھی لڑائی کا آغازکیا جس میں نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن ¾پاکستان کو فریق بننا پڑا اوراس عالمی قضئے میںجنرل پرویزمشرف کی پالیسیاں اورحکمت عملی اتنی ناقص اوریک طرفہ تھی کہ وہ پھیلتی ہوئی اس آگ کو پاکستان کی سرحدوں کے اندر آنے سے نہ روک سکی۔مشرف حکومت کی سمجھوتے بازی کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی قیادت بھی ¾جسے اپنے وجودکی بقا کے لالے پڑے تھے ¾اس خطرناک صورت حال میںکج فہمی کا شکار رہی اور ہم اس مسئلے کی سنگینی کا بروقت ادراک نہ کر سکی۔ ہم ایک مدت تک اس بحث میں الجھے رہے کہ دہشت گردی کےخلاف یہ جنگ ہماری جنگ ہے کہ امریکہ کی ۔ اس دوران دہشت گردتیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے ہماری گلیوں اورہمارے گھروںتک آگئے اور سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ہم تک پہنچتے پہنچتے اس جنگ کی شکل ہی بدل گئی اور اس میں کئی مقامی ¾ غیرمقامی مفادات شامل ہو گئے ¾ اب یہ لڑائی کئی مشکل جہتیں اختیارکرگئی ہے۔یہ جنگ ہماری تھی کہ نہیں مگر حالات نے اسے ہماری جنگ بنا ہی دیااورہم ابھی تک اس مسلط کی گئی جنگ کے نتائج بھگت رہے ہیں۔دہشت گرد وں کیخلاف انکے محفوظ ٹھکانوں میں زندگی تنگ کی گئی تو انہوں نے ہمارے شہروں کا رخ کرکے امن تہہ وبالا کرکے رکھ دیا۔ دہشتگردی کےخلاف یہ جنگ بہت اہم موڑ میں داخل ہو چکی ہے اوراگراس موقع پر گرفت ڈھیلی کی گئی تو بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔ گزشتہ دنوں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی المنائی ایسوسی ایشن سندھ چیپٹرکے تحت جے ایس بینک کے اشتراک سے” امن ¾سلامتی اور حکمرانی“کے موضوع پر قومی سیمینارمنعقدہواجس سے کورکمانڈرکراچی لیفٹیننٹ جنرل نویدمختار ¾پیپلزپارٹی کی رہنماشیری رحمٰن ¾سابق وزیرداخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)معین الدین حیدر ¾لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق وسیم غازی ¾سابق آئی جی سند ھ ڈاکٹر شعیب سڈل ¾ میزبان عمران حلیم شیخ اورکئی اہم شخصیات نے خطاب کیااوردہشت گردی کے اسباب و علل پر کھل کربات کی۔موجودہ حالات میں کورکمانڈرکراچی لیفٹیننٹ جنرل نویدمختار کاخطاب چشم کشا تھا ¾جس میں شکوے بھی تھے ¾ چٹکیاں بھی تھیں ¾تشویش بھی تھی اورعزم بھی۔ میں اس طویل خطاب سے ایک اقتباس اپنے قارئین کی نذرکرتاہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ دہشت گردی کےخلاف جنرل راحیل شریف اور انکی پروفیشنل ٹیم کی سمت کیا ہے اوروہ کراچی کو دہشت گردوں سے نجات دلانے کیلئے کس حد تک جانے کا ارادہ رکھتی ہے :

” شہر قائد میں منشیات فروشوں سے لے کر القاعدہ تک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں تاہم سیاسی اور انتظامی نااہلی نے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ کراچی میں امن کیلئے کسی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ کراچی میں ہر قسم کے جرائم پیشہ افراد کیخلاف آپریشن جاری ہے ¾جس میں ناکام ہونے کا آپشن نہیں ہے ¾ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی طریقہ اپنانا ہوگااور ہرممکن اقدامات کرنا ہونگے۔ سیکورٹی فورسزاور عوام کی قربانی کو ضائع نہیں ہونے دینگے ¾کراچی میں امن وامان بحال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ¾ ہم ہر قسم کی دہشتگردی اوراس میں سہولت کاروں کا خاتمہ کرینگے۔ وائٹ کالر دہشت گردوںکی مالی مدد کرنے والوں اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنیوالے عناصر اور گروہوں کا خاتمہ کرینگے ۔تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے اندر سے عسکری ونگ اور جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کریں متوازی حکومتوں اور طاقت کے مراکز کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ صفورا گوٹھ میں بربریت کے واقعے پرکوئی بھی الفاظ لواحقین کے زخموں کا مداوانہیں کرسکتے۔ ہم دہشتگردوں ¾ٹارگٹ کلرز ¾بھتہ خوروں ¾ اغواکاروں اور جرائم پیشہ افرادکےخلاف لڑرہے ہیں۔تمام اسٹیک ہولڈرز عسکریت پسندوں اور مافیاز کیخلاف مدد دیں ¾ ہم نے کئی بتوں کو توڑ دیا ہے ¾قانون کا نفاذ عملی اقدامات کا ایک حصہ ہے ¾پولیس اور انتظامیہ کو آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔ کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ یہ ایک میگا سٹی ہے جو ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔یہاں بندرگاہیں موجود ہیں اور ملکی تجارت کا بیشتر حصہ کراچی میں ہی ہوتا ہے۔ مافیاز نے شہر کے مضافاتی علاقوں کو اپنا گڑھ بنایا ہوا ہے۔ لینڈ مافیاز اور ٹینکر مافیاز بھی سرگرم ہیں۔ کراچی 65 فیصد ریونیو کما کر دینے والا شہر ہے۔ کراچی کی بندرگاہوں سے ملک کی 80 فیصد تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں جبکہ دہشتگردوں نے شہر کے امن کو نقصان پہنچایا جس سے تجارتی سرگرمیاں بھی متاثرہوئی ہیں تاہم دہشتگردی کی پیچیدہ گرہیں کھولی جارہی ہیں اور چیلنجز سے نمٹنے کےلئے غیرمعمولی طریقے اپنانے ہوں گے۔ جس قوم میں قربانیاں دینے والے موجود ہوں انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا ¾ دہشت گردی میں ہزاروں افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں شہری اور فوجی اہلکار شامل ہیں اور قوم کی ان قربانیوں کو رائیگاں جانے نہیں دیا جائیگا۔ جرائم پیشہ افراد اورانکے سہولت کاروں کےخلاف کارروائی جاری رہے گی۔ کراچی آپریشن قوم کے مفاد میں ہے اوریہ منطقی انجام تک جاری رہے گا۔“وقت بہت بیت گیا ہے مگر پانی ابھی سر سے اوپر نہیں گیا۔جنرل پرویزمشرف نے دوہزارکی دہائی کے آغازمیں اپنی عاجلاانہ پالیسوں سے ہماری راہوں میں جو کانٹے بچھائے تھے وہ چودہ پندرہ سال بعد جنرل راحیل شریف اورانکے رفقا اپنی پلکوں سے چن رہے ہیں۔”آپریشن ضرب عضب “اورآپریشن کراچی فوج کی اسی مہم کاحصہ ہیں۔ہم نے ملک فتح کرلئے لیکن اپنی گلیوں اورگھروں کو دہشت گردوں سے محفوط نہ رکھ سکے۔اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کو دہشتگردی سے پاک کرنے کیلئے ”نیشنل ایکشن پلان “ایک کارآمد نسخہ قراردیا گیا جس پرعسکری اورسیاسی قیادت کے اتفاق کے بغیربیل منڈھے نہیں چڑھ سکے گی۔ ©اس ضمن میں ”امن ¾ سلامتی اورحکمرانی “جیسے اہم موضوع پر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی المنائی ایسوسی ایشن سندھ چیپٹر نے قومی سیمینارمنعقد کرکے اپنی قومی ذمہ داریاں پوری کی ہیں۔ اس عظیم مقصد کی تکمیل میں جے ایس بینک ¾اس کی انتظامیہ اورعمران حلیم شیخ اور انکی ٹیم لائق تحسین ہے۔

مزیدخبریں