”محبت لفظ تھا میرا“

یہ وہی لفظ تھا کہ گرو نے اپنے بالک کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ محبت تو وہ خوب صورتی ہے جو جنگل میں منگل کا میلہ لگا دیتی ہے۔ محبت چہچہاتی چڑیوں کا وہ نغمہ ہے۔ جس سے وہ ربوبیت کا حق ادا کرتی ہیں اور جب یہ من میں ا±گ آتی ہے تو اندھیروں کو مٹا کر پرنور کر دیتی ہے۔ جیسے کہ دن کا اجالا رات کی سیاہی کو نگل لیتا ہے۔ رات کی سیاہی اگر حقیقت ہے تو دن کا اجالا محبت بن کر چاروں اطراف پھیل جاتا ہے اور جب یہ صفت انسانوں کے اندر ا±تر آتی ہے تو انفرادی اور اجتماعی مثبت تبدیلیاں یقینی ہو جاتی ہیں۔ میں نے ڈاکٹر فوزیہ افتخار کے ساتھ دوران ملازمت زندگی کے چھ سال گزارے۔ ایک استاد کے سفر سے لے کر پرنسپل شپ کے سفر تک میں نے ان کی شخصیت میں حق گوئی، ارادوں میں عزم اور حوصلوں میں جوانمردی سے بہت کچھ سیکھا۔ پے در پے مشکلات اور مسائل سے نبرد آزما ہونا ان کی ہمت کی ایک روشن اور واضح مثال ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ....
جب اڑانیں بلند ہو جائیں
تو مخالف ہوا بھی ممکن ہے
اسی ہوا کے دوش پر انہوں نے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ اب جبکہ ان کی ریٹائرمنٹ کو چار ماہ کا قلیل عرصہ رہ گیا ہے تو ایک خلا ہے پھیل کر کالج کے اطراف میں پھیلتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں وائس پرنسپل مسز غزالہ سردار نے اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ان کے لئے جو الفاظ ادا کئے۔ میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان کے ہر ادارے کے سربراہ میں اتنا عزم حوصلہ اور مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کا حوصلہ ہو تو یقیناً ہم مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں انسانیت سے محبت کا جذبہ ماند پڑنے لگ جائے تو معاشرے کا زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ....
چاروں جانب ہے حبس پھیلا ہوا
ایک تازہ خیال رہنے دو
ڈاکٹر فوزیہ افتخار خیال تازہ کی ہمیشہ قائل رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد کالج کے تین امور پر خصوصی توجہ دی۔ سٹاف اور طلبہ کے مسائل اور ان کا حل اور تعلیمی ترقی کے لئے بہتر اقدامات اور کالج کی کارکردگی کو بہتر بنانا، کالج میں نئے کمروں کی تعمیر ان کا ایک خصوصی کارنامہ ہے کہ اس سے قبل کھلی جگہوں پر طالبات علم حاصل کرنے پر مجبور تھیں۔ انہوں نے اپنی قلیل مدت ملازمت میں جبکہ وہ پرنسپل کے عہدے پر تعینات ہوئیں ذاتی دلچسپی سے کمروں کی تعمیر کا آغاز کروایا۔ ”نیوز لیٹر“ کی اشاعت سے تمام طالبات کو کالج کی کارکردگی سے آگاہ کیا اور محنت، جستجو اور لگن کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کی شخصیت کے اثرات مثبت نتائج کے حامل نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مسز غزالہ سردار نے اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ایک الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا۔ جہاں انہوں نے چھوٹے سے چھوٹے ملازمین کی ضرورت کا خیال رکھا۔ کالج سے متعلقہ تمام افراد کو تحائف سے نوازا گیا۔ کالج کی بہتری کے لئے تمام شعبہ جات کے سربراہان کو خطیر رقم سے نوازا تاکہ وہ کالج کی ترقی اور بہتری پر وہ رقم خرچ کر سکیں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس جدوجہد اور کاوش کا سہرا یقیناً ڈاکٹر صاحبہ کے سر جاتا ہے کہ جنہوں نے اس پودے کی اتنی آبیاری کی کہ ہر دل کی خواہش بن گیا۔ ادارے قومیں اور افراد اسی جذبے کی بدولت ان کامیابیوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو ان کی منزل ہوتا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اجتماعی اور افرادی سطح پر لگن حوصلہ، جستجو، مروت اور احساس کے پودے کی آبیاری درحقیقت اس ادارے یا قوم کی مضبوطی کا سبق دیتی ہے۔ جس پر چل کر قومیں منزل حاصل کرتی ہیں۔ میں نے اپنی کسی کالم میں لکھا تھا کہ ہم بحیثیت قوم چونکہ منزل کا ادراک کھو بیٹھے ہیں لہٰذا ہم منزل کی گرد تک بھی نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ کیونکہ اس کے لئے مشکلات، کٹھن راستوں اور آزمائشوں سے گزر کر سرخرو ہونا ہی پہلی شرط ہے۔ ....
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار شجر سایہ دار راہ میں ہے
ڈاکٹر فوزیہ افتخار صاحبہ کے لئے الوداعی کالم لکھتے ہوئے میں یہ کہوں گی کہ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اپنے ارادوں اور حوصلوں میں کامیاب رہیں۔ اور کالج کے لئے ایک نئی سمت کا تعین ہوا۔ جہاں ہر شعبہ میں کالج نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس شمع کو جلائے رکھیں کہ جس کی روشنی میں ہم ایک مضبوط سمت حاصل کر سکیں اور ان اندھیروں سے بچ سکیں جو ہمارا مقدر بنتے جا رہے ہیں۔....
وہ بانٹتا ہے محبتوں کو
اسی لئے تو بھلا لگا ہے

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...