کراچی (نیٹ نیوز) کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر حملے کے مقدمے میں گرفتار ملزموں نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا ہے کہ وہ باہمی رابطے کے لیے ’ٹاک رے‘ نامی سافٹ ویئر استعمال کرتے تھے تاکہ ان کے رابطوں کا سراغ نہ لگ سکے۔ اسماعیلی برادری کی بس پر حملے میں 46 افراد ہلاک ہوئے تھے اور پولیس نے حملے کے الزام میں چار ملزموں سعد عزیز، طاہر حسین، اظہر عشرت اور حافظ ناصر کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جن میں سے تین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ کراچی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ملزموں سے برآمد ہونے والے موبائل فونز میں ’ٹاک رے‘ نامی سافٹ ویئر موجود تھا اور دوران تفتیش انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کا آپس میں رابطہ اسی کے ذریعے رہتا تھا۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان میں ٹاک رے کا استعمال عام نہیں۔ ایک آئی ٹی ماہر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سافٹ ویئر کی مدد سے فون کو واکی ٹاکی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور انٹرنیٹ کی کم سپیڈ میں بھی یہ بہتر نتائج دیتا ہے۔ دوران تفتیش ملزموں نے پولیس حکام کو یہ بھی بتایا کہ اسماعیلی بس پر حملے کے واقعہ کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی گئی تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا یہ ریکارڈنگ پولیس کو ملی ہے یا نہیں۔ پولیس حکام نے بتایا ہے کہ ملزمان نے اپنی موٹر سائیکلوں میں پستول چھپانے کے لیے خصوصی خانے بنائے ہوئے تھے جو نشستوں کے نیچے تھے اور یہی وجہ ہے کہ شہر میں پولیس اور رینجرز کی چیکنگ کے باوجود وہ کبھی نہیں پکڑے گئے۔ تحقیقاتی اداروں نے ابتدائی طور پر چاروں ملزموں کا انسداد دہشت گردی کی عدالت سے پولیس اہلکاروں پر حملے اور نیوی افسر پر فائرنگ کے مقدمے میں ریمانڈ حاصل کیا ہے جبکہ ملیر، شرقی اور جنوبی پولیس نے ابھی بس حملے، سبین محمود قتل کیس اور دیگر مقدمات میں تفتیش کرنی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملزم طویل عرصے تک زیر تفتیش رہیں گے۔
سانحہ صفورا / ملزم