خطے کا امن افغانستان کے امن سے وابستہ، چار ملکی اتحاد کو ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا

ملا اختر منصور ڈرون حملے میں ہلاک۔ پاکستان سے مشاورت کی، طالبان امیر مذاکرات مخالف تھے: امریکہ

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے جاری ایک بیان میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے جبکہ اہم طالبان کمانڈر نے بھی طالبان سربراہ کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغان حکام کو اعتماد میں لے کر حملہ کیا گیا، ملا اختر منصور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے لئے خطرہ بن چکا تھا، طالبان سربراہ پر حملے کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات کی تھی جبکہ حملہ واضح پیغام ہے کہ پرامن اور خوشحال افغانستان کے لئے کام جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز پینٹا گون نے پاک افغان سرحد کے قریب نوشکی میںڈرون حملے میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ حملے میں ملا اختر منصور کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں ان کا ایک ساتھی بھی مارا گیا۔ پینٹاگون کے مطابق ملا اختر منصور پر حملے کی منظوری امریکی صدر اوباما نے دی تھی۔ پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کک نے ایک بیان میں کہا کہ ملا منصور ’طالبان کے سربراہ رہے ہیں اور وہ کابل اور افغانستان بھر میں تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی میں فعال طریقے سے حصہ لیتے رہے ہیں۔ وہ افغان شہریوں، سکیورٹی فورسز اور ہمارے عملے کے ارکان اور اتحادیوں کے لئے خطرے کا باعث بنے رہے ۔منصورہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن اور مصالحت کی راہ میں رکاوٹ رہے اور انھوں نے طالبان رہنماؤں کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں حصہ لینے سے روک رکھا تھا۔
ملا عمر 2013 میں فوت ہوئے تھے تاہم طالبان کی جانب سے ان کی موت کی خبر کی تصدیق دو سال بعد ہوئی تھی۔ ملا اختر منصور 60 کی دہائی میں افغانستان کے صوبے قندہار میں پیدا ہوئے جس کی سرحد پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ملتی ہے۔ ان کی عمر 50 سال کے لگ بھگ تھی ان کا تعلق افغانستان کے اسحاق زئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔ وہ ’افغان جہاد‘ کے دوران خیبرپختونخوا کے شہر نوشہرہ میں جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے کے طالب علم بھی رہے۔ طالبان ذرائع کے مطابق ملا اختر منصور نے سابق سویت یونین کے خلاف ایک مختصر عرصے تک جہاد میں حصہ لیا اور اس وقت وہ افغان جہادی پارٹی حزب اسلامی افغانستان (یونس خالص) گروپ سے منسلک تھے۔ وہ سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی سوویت یونین نواز حکومت کے خلاف بھی لڑتے رہے ہیں۔ 90 کی دہائی کے آخر میں جب افغانستان میں ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان کا ظہور ہوا تو ملا اختر محمد منصور نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ طالبان دور حکومت کے دوران سول ایوی ایشن کے وزیر اور کچھ عرصہ تک قندھار ہوائی اڈے کے انچارج رہے۔ اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی روپوش ہو گئے اور ایک لمبے عرصے تک غائب رہے۔ جب طالبان قیادت دوبارہ منظم ہوئی تو وہ بھی منظر عام پر آئے اور اس دوران وہ قندہار صوبے کے لیے طالبان کے ’شیڈو‘ گورنر کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے۔ گزشتہ سال ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان امیر مقرر کیا گیا جس پر طالبان کے اندر تنازعات نے جنم لیا اور کئی طالبان گروپوں نے ان کو امیر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تاہم وہ افغانستان میں طالبان کے سب سے بڑے اور طاقتور گروپ کی قیادت کرتے تھے اس لئے ان کی بطور طالبان امیر حیثیت کو مخالف متاثر کن طریقے سے چیلنج نہ کر سکے۔ ان کی امارت کے دوران افغانستان میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ پہلے سے تیز ہو گیا تھا۔ طالبان نے کچھ صوبوں کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا تاہم امریکی طیاروں کی بمباری سے طالبان کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ امریکہ طالبان کی فعالیت پر خائف تھا اس لئے ملا منصور کی تاک میں رہا اور موقع پاتے ہی اسے نشانہ بنا ڈالا۔ ملا منصور کی ہلاکت پر ان کے ساتھیوں کا بپھرنا فطری امر ہے۔ وہ امریکہ اور افغان انتظامیہ کو نقصان پہنچانے کیلئے سرگرم ہونگے چونکہ ملا منصور پر حملہ پاکستان کی مشاورت سے کیا گیا اس لئے طالبان پاکستان کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرینگے۔
خطے میں امن کیلئے افغانستان کے امن کو بنیادی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے ہی امن کا قیام ممکن ہے جس کیلئے چار فریقی گروپ کوشاں ہے۔ اس گروپ میں امریکہ چین، پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔ طالبان کے مذاکرات پر آمادہ نہ ہونے تک چار فریقی گروپ کی کوششیں ثمر آور نہیں ہو سکتیں۔ ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد نئے طالبان امیر کے انتخاب کیلئے طالبان گروپوں میں کئی ماہ چپقلش رہی، اس دوران ایک دوسرے پر حملے ہوئے جن میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ افغانستان وارلارڈز کی سرزمین ہے تمام گروپوں کو ایک نکتے یا ایجنڈے پر جمع اور متفق کرنا آسان نہیں۔ حالات ملا عمر کی موافقت میں تھے تو وہ اقتدار میں آ گئے۔ دیگر وارلارڈز نے ان کی حمایت کی۔ ملا عمر کی اقتدار سے رخصت اور پھر ان کی وفات کے بعد طالبان میں اختلافات بڑھتے گئے۔ ملا منصور اختر کے انتخاب میں یہ اختلافات تنازعات کی صورت میں سامنے آئے۔ ملا منصور کے مارے جانے کے بعد نئے امیر کا انتخاب آسان نہیں ہو گا۔ اس میں طویل عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ افغانستان میں امن صرف اور صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ افغانستان میں قیام امن کیلئے کوشاں ممالک کو مذاکرات کیلئے طالبان کے امیر کے انتخاب کا انتظار کرنا ہو گا۔ افغانستان میں امریکہ کا عمل دخل اور دلچسپی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ امریکہ اور اس کے ہم خیال ممالک کی طرف سے افغانستان میں طالبان کی مصنوعی قیادت لانے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج تباہ کن تو ہو سکتے ہیں حوصلہ افزاء ہرگز نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ طالبان کو اپنے امیر کے انتخاب کا موقع دیا جائے تاکہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو سکے۔
ملا منصور کی ہلاکت سے ایک روز قبل افغانستان میں طالبان کے خودکش حملے میں چار نیٹو فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کر دیا گیا ایک جج بھی قتل ہوا۔ ملا منصور کی ہلاکت کے بعد ایسے حملوں میں تیزی آنے کا خدشہ ہے۔ افغان طالبان کی کارروائیاں پاکستان کے اندر تک بھی وسیع ہو سکتی ہیں۔ اس لئے ہمیں حفاظتی انتظامات کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ پاکستان اور افغان بارڈر اڑھائی ہزار کلو میٹر طویل ہے۔ افغانوں اور پاکستانیوں کے سرحد آر پار آنے جانے کیلئے کئی چیک پوسٹیں ہیں۔ ان کے ذریعے آمدروفت جاری رہتی ہے۔ جہاں دہشتگردوں کی چیکنگ کا مناسب بندوبست نہیں ہے۔ اگر کوئی بندوبست ہو پھر بھی دہشتگردوں کیلئے اڑھائی ہزار کلو میٹر بارڈر اِدھر سے اُدھر جانے اور اُدھر سے اِدھر آنے کیلئے کھلا ہوا ہے۔ دہشتگردوں کی آمدورفت روکنے کیلئے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد کی حیثیت دیکر اس پر باڑ لگانا یا دیوار بنانا ضروری ہے۔ ملا اختر منصور افغانستان سے آسانی کے ساتھ پاکستان میں داخل ہو گئے۔ چیک پوسٹ پر فول پروف انتظامات ہوتے تو ان کا پاکستان میں داخل ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ چیک پوسٹوں پر چیکنگ کی رسمی کارروائی کی جاتی ہے۔ افغانستان میں امریکی مفادات بھی سٹیک پر ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کو حتمی شکل دینا امریکہ کے مفاد میں بھی ہے۔ مگر وہ شاید بھارت کے ایما پر اس طرف آنے پر تیار نہیں ہے۔ کیونکہ بھارت پاکستان میں مداخلت کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے اور امریکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا برملا اعلان کر چکا ہے۔ بھارت ہی کی لابنگ پر امریکہ نے F16 طیاروں پر سبسڈی دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی اور 450 ملین ڈالر کی امداد پر قدغن لگائی ہے۔ آج پاکستان امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے پر خود دہشتگردی کی آگ میں جھلس رہا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ آج بھی اس کا تعاون جاری ہے جیسا کہ کیری کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملا اختر منصور پر حملہ سے قبل پاکستان سے مشاورت کی گئی تھی۔ اب امریکہ کو بھارت نوازی کی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اسے پاکستان میں مداخلت سے باز رکھنا ہو گا اور دونوں ممالک کے مابین بنیادی ایشو مسئلہ کشمیر کے حل پر بھارت کو آمادہ کرنا ہو گا۔ مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی وجہ ہی ختم ہو جائے گی جس سے خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے گا۔

ای پیپر دی نیشن